Home ≫ ur ≫ Surah Ash Shuara ≫ ayat 136 ≫ Translation ≫ Tafsir
قَالُوْا سَوَآءٌ عَلَیْنَاۤ اَوَ عَظْتَ اَمْ لَمْ تَكُنْ مِّنَ الْوٰعِظِیْنَ(136)
تفسیر: صراط الجنان
{قَالُوْا: بولے۔} قومِ عادنے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نصیحتوں کا جواب یہ دیا کہ’’ آپ ہمیں نصیحت کریں یا آپ نصیحت کرنے والوں میں سے نہ ہوں ، ہمارے لئے دونوں چیزیں برابر ہیں ، ہم کسی طرح آپ کی بات نہ مانیں گے اور نہ آپ کی دعوت قبول کریں گے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۳۶، ۳ / ۳۹۲، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۳۶، ص۸۲۷، ملتقطاً)
نصیحت قبول کرنا مسلمان کا اور نہ ماننا کافر کا کام ہے :
اس آیت سے معلوم ہو اکہ نصیحت قبول کرنا مسلمان کا کام ہے اور نہ ماننا کافر کا۔ اسی چیز کو بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے کہ
’’اَوَ لَا یَرَوْنَ اَنَّهُمْ یُفْتَنُوْنَ فِیْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً اَوْ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ لَا یَتُوْبُوْنَ وَ لَا هُمْ یَذَّكَّرُوْنَ‘‘(التوبۃ:۱۲۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ انہیں ہر سال ایک یا دو مرتبہ آزمایا جاتا ہے پھر (بھی) نہ وہ توبہ کرتے ہیں اورنہ ہی نصیحت مانتے ہیں ۔
اورارشاد فرماتا ہے:
’’وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لِیَذَّكَّرُوْاؕ-وَ مَا یَزِیْدُهُمْ اِلَّا نُفُوْرًا‘‘ (بنی اسرائیل:۴۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک ہم نے اس قرآن میں طرح طرح سے بیان فرمایا تاکہ وہ سمجھیں اور یہ سمجھانا ان کے دور ہونے کو ہی بڑھا رہا ہے۔
اورارشاد فرماتا ہے:
’’ اَفَمَنْ یَّعْلَمُ اَنَّمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ اَعْمٰىؕ-اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ‘‘(رعد:۱۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: وہ آدمی جو یہ جانتا ہے کہ جو کچھ تمہاریطرف تمہارے رب کے پاس سے نازل کیا گیا ہے وہ حق ہے تو کیا وہ اس جیسا ہے جو اندھا ہے؟ صرف عقل والے ہی نصیحت مانتے ہیں ۔
نیزکامل ایمان والوں کے بارے میں ارشادفرمایا کہ جب ان کے رب عَزَّوَجَلَّ کی آیتوں کے ساتھ انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو وہ ان پر غفلت کے ساتھ بہرے اندھے ہوکر نہیں گرتے کہ نہ سوچیں نہ سمجھیں بلکہ ہوش وحواس قائم رکھتے ہوئے سنتے ہیں اورچشمِ بصیرت کے ساتھ دیکھتے ہیں اور اس نصیحت سے ہدایت حاصل کرتے ہیں ،نفع اُٹھاتے ہیں اور ان آیتوں پر فرمانبردارانہ گرتے ہیں ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ
’’وَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْهَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًا‘‘(الفرقان:۷۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ لوگ کہ جب انہیں ان کے ربکی آیتوں کے ساتھ نصیحت کی جاتی ہے تو ان پر بہرے اندھے ہوکر نہیں گرتے۔
فی زمانہ نصیحت قبول کرنے کے حوالے سے مسلمانوں کی حالت ایسی ہو چکی ہے کہ اگر کسی کو سمجھایاجائے تو وہ ماننے کو تیار نہیں ہوتا اور اگر سمجھانے والا مرتبے میں اپنے سے کم ہو تو جسے سمجھایا جائے وہ اپنی بات پراڑ جا تا ہے اور دوسرے کی بات ماننا اپنے لئے توہین سمجھتا ہے اور نصیحت کئے جانے کو اپنی عزت کا مسئلہ بنالیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اب چھوٹے خاندان والے بڑے خاندان والوں کو نہیں سمجھا سکتے، عام آدمی کسی چودھری کو نہیں سمجھاسکتا،غریب شخص کسی مالدار آدمی کو نہیں سمجھا سکتا، عوام کسی دنیوی منصب والے کو نہیں سمجھا سکتے، مسجدوں میں کوئی نوجوان عالم یا دینی مبلغ کسی پرانے بوڑھے کو نہیں سمجھا سکتا بلکہ جسے سمجھایا جائے وہی گلے پڑ جاتا ہے۔اللہ تعالٰی مسلمانوں کے حال پر رحم فرمائے، انہیں چاہئے کہ ان آیاتِ کریمہ پر غور کر کے اپنی حالت سدھارنے کی کوشش کریں ۔ چنانچہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ اِذَا قِیْلَ لَهُ اتَّقِ اللّٰهَ اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُهٗ جَهَنَّمُؕ-وَ لَبِئْسَ الْمِهَادُ‘‘(بقرہ:۲۰۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب اس سے کہا جائے کہ اللہ سے ڈرو تو اسے ضد مزید گناہ پر ابھارتی ہے توایسے کو جہنم کافی ہے اور وہ ضرور بہت برا ٹھکاناہے۔
اورارشاد فرماتا ہے:
’’وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّهٖ فَاَعْرَضَ عَنْهَا وَ نَسِیَ مَا قَدَّمَتْ یَدٰهُؕ-‘‘( کہف:۵۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جسے اس کے رب کی آیتوں کے ذریعے نصیحت کی جائے تو وہ ان سے منہ پھیرلے اور ان اعمال کو بھول جائے جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجے ہیں ۔
اورمسلمانوں کو منافقین اور مشرکین کے حال سے دُور رہنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ
’’وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ هُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ‘‘(انفال:۲۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جنہوں نے کہا :ہم نے سن لیا حالانکہ وہ نہیں سنتے۔
اللہ تعالٰی عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔