ترجمہ: کنزالایمان
اور اگر ہم اسے کسی غیر عربی شخص پر ا تارتے۔
کہ وہ انہیں پڑھ سناتا جب بھی اس پر ایمان نہ لاتے۔
ہم نے یونہی جھٹلانا پیرا دیا ہے مجرموں کے دلوں میں ۔
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر ہم اسے کسی غیر عربی شخص پر اتارتے۔
پھر وہ ان کے سامنے قرآن کو پڑھتا جب بھی وہ اس پر ایمان لانے والے نہ تھے۔
یونہی ہم نے مجرموں کے دلوں میں اس قرآن کے جھٹلانے کو داخل کردیا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ
لَوْ نَزَّلْنٰهُ عَلٰى بَعْضِ الْاَعْجَمِیْنَ: اور اگر ہم اسے کسی غیر عربی شخص پر اتارتے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کے معنی یہ ہیںکہ ہم نے یہ قرآن کریم ایک فصیح، بلیغ اورعربی
نبی پر اُتارا جس کی فصاحت سب اہلِ عرب مانتے ہیںاور وہ جانتے ہیںکہ قرآن کریم
عاجز کر دینے والا کلام ہے اور اس کی مثل ایک سورت بنانے سے بھی پوری دنیا عاجز
ہے۔ علاوہ بریںاہلِ کتاب کے علماء کا
اتفاق ہے کہ قرآن پاک کے نزول سے پہلے اس کے نازل ہونے کی بشارت اور اس نبی کی
صفت اُن کی کتابوںمیںانہیںمل چکی ہے، اس سے قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ یہ نبی اللہتعالٰی کے بھیجے ہوئے ہیںاور یہ کتاب اس کی نازل فرمائی ہوئی ہے اور
کفارجو طرح طرح کی بے ہودہ باتیںاس کتاب
کے متعلق کہتے ہیںسب باطل ہیںاور خود کفار بھی حیران ہیںکہ اس کے خلاف کیا بات کہیں ، اس لئے کبھی اس
کو پہلوںکی داستانیںکہتے ہیں ، کبھی شعر، کبھی جادو اور کبھی یہ کہ مَعَاذَاللہ اس کو خود رسولُ اللہصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَنے بنالیا ہے اور اللہ تعالٰی کی طرفاس کی غلط نسبت کردی ہے۔ اس طرح
کے بے ہودہ اعتراض عناد رکھنے والا ہر حال میںکرسکتا ہے حتّٰی کہ اگر بالفرض یہ قرآن کسی غیر عربی شخص پر نازل
کیا جاتا جو عربی کی مہارت نہ رکھتا اور اس کے باوجود وہ ایسا عاجز کر دینے والا
قرآن پڑھ کر سنا تا جب بھی لوگ اسی طرح کفر کرتے جس طرح انہوںنے اب کفر و انکار کیا کیونکہ اُن کے کفر و
انکار کا باعث عناد ہے۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۹۸-۱۹۹، ص۸۳۲)
حق بات قبول کرنے میںایک
رکاوٹ:
اس سے معلوم ہو اکہ عناد حق بات کو قبول کرنے کی راہ میںبہت بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ جس شخص کے دل میں کسی کے
بارے میںعناد بھرا ہوا ہو وہ اس کے
اعتراضات کے جتنے بھی تسلی بخش جوابات دے لے اور حق بات پر جتنے بھی ایک سے ایک
دلائل پیش کر دے عناد رکھنے والے کے حق میںسب بے سود ہوتے ہیںاور عناد رکھنے
والاان سے کوئی فائدہ اٹھاتا ہے اور نہ ہی ان کی وجہ سے حق بات کو قبول کرتا ہے۔
یہی چیز ہمارے معاشرے میںبھی پائی جاتی
ہے کہ ایک مرتبہ جس شخص کے بارے میںدشمنی
دل میںبیٹھ جائے تو ا س پر طرح طرح کے
بیہودہ اعتراضات شروع کر دئیے جاتے ہیںاور وہ اپنی صداقت و صفائی پر جتنے چاہے دلائل پیش کرے اسے ماننے پر تیار نہیںہوتے۔ اللہ تعالٰی ایسے لوگوںکو عقلِ سلیم اور ہدایت عطافرمائے،اٰمین۔
{ كَذٰلِكَ: یونہی۔} یعنی ہم نے اسی طرح ان کافروںکے دلوںمیںاس قرآن کے جھٹلانے کو داخل
کردیا ہے جن کا کفر اختیار کرنا اور اس پر مُصِر رہنا ہمارے علم میںہے، تو اُن کے لئے ہدایت کا کوئی بھی طریقہ
اختیار کیا جائے کسی حال میںوہ کفر سے
پلٹنے والے نہیں ۔( مدارک، الشعراء،
تحت الآیۃ: ۲۰۰، ص۸۳۲)
سورت کا تعارف
سورۂ شعراء کا تعارف
مقامِ نزول:
سورۂ شعراء آخری چار
آیتوں کے علاوہ مکیہ ہے،وہ چار آیتیں’’وَ الشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُهُمْ‘‘سے شروع ہوتی ہیں۔(خازن، تفسیر سورۃ الشعراء، ۳ / ۳۸۱)
رکوع اور آیات
کی تعداد:
اس سورت میں 11رکوع اور 227
آیتیں ہیں ۔
’’شعراء ‘‘نام
رکھنے کی وجہ :
شعراء، شاعر کی جمع ہے جس
کا معنی واضح ہے۔ اس سورت کی آیت نمبر224سے تاجدارِ رسالت صَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے خلاف شاعری کرنے والے
مشرکین کی مذمت بیان کی گئی ہے، اس مناسبت سے اس سورت کا نام ’’سورۂ شعراء‘‘
رکھاگیا۔
سورۂ شعراء کی
فضیلت:
حضرت انس بن مالکرَضِیَاللہ تَعَالٰیعَنْہُسے روایت ہے،نبی کریمصَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’اللہتعالٰی نے مجھے تورات کی جگہ (قرآن پاک کی ابتدائی) سات( لمبی) سورتیں عطا کیں اور
انجیل کی جگہ راء ات
(یعنی وہ سورتیں) عطا
کیں (جن کے شروع میں لفظ
’’ر‘‘ موجود ہے)
اور زبور کی جگہ طواسین (یعنی وہ سورتیں جن کے شروع میں ’’طٰسٓمّٓ‘‘ ہے)
اور حوامیم (یعنی وہ سورتیں جن کے
شروع میں حٰمٓہے) کے
مابین سورتیں عطا فرمائیں اور مجھے حوامیم اور مُفَصَّل سورتوں کے ذریعے (ان انبیاء کرامعَلَیْہِمُالصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَامپر) فضیلت دی گئی اور مجھ سے
پہلے ان سورتوں کو کسی نبی نے نہیں پڑھا۔(
کنز العمال، کتاب الاذکار، قسم الاقوال، ۱ /
۲۸۵، الحدیث: ۲۵۷۸، الجزء الاول)
مضامین
سورۂ
شُعراء کے مَضامین:
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ ا س میں اللہ تعالٰی کے واحد و یکتا ہونے،تاجدارِ رسالتصَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا اللہتعالٰی کا نبی اور رسول ہونے،موت
کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور اسلام کے دیگر عقائد کو دلائل کے ساتھ بیان کیا
گیا ہے، نیز ا س سورت میں یہ چیزیں بیان کی گئی ہیں ،
(1)…اس سورت کی ابتداء میں قرآن پاک کی عظمت و شان اور ہدایت کے معاملے میں
اس کا ہدف بیان کیا گیا۔
(2)…نبی کریمصَلَّیاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر قرآن پاک وحی کی صورت میں نازل ہونے کو ثابت کیا گیا
اور کفارِ مکہ کے رسولِ کریمصَلَّیاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی رسالت پر ایمان لانے سے اِعراض کرنے پر آپصَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو تسلی دی گئی۔
(3)…نباتات کی تخلیق سے اللہ تعالٰی کے وجود اور اس کی وحدانیت پر اِستدلال کیا گیا۔
(4)…سیّد المرسَلینصَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو جھٹلانے والے کفار کو نصیحت کرنے کے لئے پچھلے انبیاء ِکرامعَلَیْہِمُالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور ان کی امتوں کے واقعات بیان کئے گئے اور اس سلسلے میں سب سے پہلے حضرت موسیٰعَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَامکا واقعہ بیان کیا گیا اور اس واقعے میں حضرت موسیٰعَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَامکے معجزات، اللہ تعالٰی کی وحدانیت کے بارے میں فرعون اور اس کی قوم کے ساتھ حضرت موسیٰعَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَامکا ہونے
والامُکالمہ،روشن نشانیوں کے ساتھ حضرت موسیٰعَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَامکی تائید و مدد کئے جانے اور جادوگروں کے ایمان لانے کو ذکر کیاگیا۔اس کے بعد حضرت ابراہیمعَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَامکا وہ وا قعہ بیان کیا گیا جس میں انہوں نے اپنے عُرفی باپ آزر اور اپنی قوم کا بتوں کی پوجا کرنے کے
معاملے میں رد کیا اور اللہ تعالٰی کی وحدانیت و یکتائی کو ثابت کیا۔اس کے بعد
حضرت نوح،حضرت ہود،حضرتصالح،حضرت لوط اور حضرت شعیبعَلَیْہِمُالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے واقعات بیان کئے گئے اور انہی واقعات کے ضِمن میں رسولوں کو جھٹلانے والوں کا عبرتناک انجام بیان کیاگیا۔
(5)…نیک اعمال کرنے والے مسلمانوں کو جنت کی بشارت دی گئی اور آخرت کا انکار کرنے
والے کافروں کو برے عذاب کی وعید سنائی
گئی۔
(6)…اس بات کو ثابت کیا گیا کہ قرآن مجید شیطانوں کا کلام نہیں بلکہ اللہ تعالٰی کا کلام اور ا س کی وحی ہے اورنبی کریمصَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکوئی
شاعر یا کاہن نہیں بلکہ اللہ تعالٰی کے عظیم رسول ہیں جو اس کے احکام اپنے خاندان والوں اور پوری امت تک
پہنچاتے ہیں ۔
مناسبت
سورۂ فرقان کے ساتھ مناسبت:
سورۂ شعراء کی اپنے سے ماقبل سورت ’’فرقان ‘‘کے ساتھ ایک مناسبت یہ
ہے کہ سورۂ فرقان کی ابتداء قرآن پاک کی تعظیم سے ہوئی اور سورۂ شعراء کی
ابتداء بھی قرآن پاک کی تعظیم سے ہوئی۔دوسری مناسبت یہ ہے کہ سورۂ فرقان
میںجس ترتیب سے انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے واقعات اِجمالی طور پر بیان کئے گئے اُسی ترتیب سے سورۂ شعراء میںان کے واقعات تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں ، اورتیسری
مناسبت یہ ہے کہ سورۂ فرقان کے آخر میںکفار کی مذمت اور مسلمانوںکی مدح
بیان ہوئی اور سورۂ شعراء کے آخر میںبھی کفار کی مذمت اور مسلمانوںکی
مدح بیان ہوئی ہے۔