Home ≫ ur ≫ Surah Ash Shuara ≫ ayat 227 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ ذَكَرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ انْتَصَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْاؕ-وَ سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ(227)
تفسیر: صراط الجنان
{اِلَّا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا: مگر وہ جو ایمان لائے۔} اس آیت
میں مسلمان شاعروں کا اِستثناء فرمایا گیا کیونکہ ان کے
کلام میں کافر شاعروں کی طرح مذموم
باتیں نہیں ہوتیں بلکہ وہ اشعار کی صورت
میں اللہ تعالٰی کی حمد لکھتے ہیں ،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعت لکھتے ہیں ،
دین ِاسلام کی تعریف لکھتے ہیں ،وعظ و نصیحت لکھتے ہیں اور اس پر اجرو
ثواب پاتے ہیں ۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۷، ۳ / ۳۹۹، ملخصاً)
دربارِ رسالت کے شاعر
حضرت حسان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی شان :
حضرت
عائشہ صدیقہ رَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنْہُا فرماتی ہیں ،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسجد ِنَبوی شریف
میں حضرت حسان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے لئے منبر رکھواتے تھے۔حضرت حسان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اس پر کھڑے ہو
کر (اشعار کی صورت میں ) رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعریف و توصیف
بیان کرتے اورکفار کی بدگوئیوں کا جواب دیتے تھے اورحضور
اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ (ان کے حق میں )فرماتے تھے کہ جب تک حضرت حسان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کفار کی
بدگوئیوں کا جواب دے رہے ہوتے ہیں اللہ تعالٰی حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے ذریعے ان کی مدد فرماتا ہے۔( ترمذی، کتاب الادب، باب ما جاء فی انشاد الشعر، ۴ / ۳۸۵، الحدیث: ۲۸۵۵)
ایک
اور روایت میں ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت حسان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے
فرماتے: ’’تم اللہ تعالٰی کے رسول کی طرف سے (کفار کی بد گوئیوں کا) جواب
دو۔ (پھر دعا فرماتے) اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تو حضرت حسان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی حضرت
جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے ذریعے مدد فرما۔( بخاری، کتاب الادب، باب ہجاء المشرکین، ۴ / ۱۴۲، الحدیث: ۶۱۵۲)
اشعار فی نفسہٖ
بُرے نہیں :
یاد
رہے کہ اشعار فی نفسہ برے نہیں کیونکہ وہ ایک کلام ہے، اگر اشعار اچھے
ہیں تووہ اچھا کلا م ہے اور برے اشعار ہیں تو وہ برا
کلام ہے، جیساکہ حضرت عروہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’شعر
ایک کلام ہے،اچھے اشعار اچھے کلام کی طرح ہیں اور برے اشعار برے کلام
کی طرح ہیں۔( سنن الکبری للبیہقی،کتاب الحج،باب لایضیق علی واحد
منہما ان یتکلّم بما لا یأثم فیہ۔۔۔ الخ، ۵ / ۱۱۰، الحدیث: ۹۱۸۱)
اورحضرت
عائشہ رَضِیَ اللہ
تَعَالٰی عَنْہُا فرماتی ہیں ’’ بعض اشعار اچھے ہوتے ہیں اور بعض برے ہوتے
ہیں ، اچھے اشعار کو لے لو اور برے اشعار کو چھوڑ دو۔( ادب المفرد، باب الشعر حسن کحسن الکلام ومنہ قبیح، ص۲۳۵، الحدیث: ۸۹۰)
حضرت
اُبی بن کعب رَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے
روایت ہے،حضور انور صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’بعض شعر حکمت ہوتے ہیں
۔‘‘( بخاری، کتاب الادب، باب ما یجوز من الشعر والرجز۔۔۔ الخ،۲ / ۱۳۹، الحدیث: ۶۱۴۵)
رسول
کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مجلس مبارک میں بھی شعر پڑھے جاتے تھے جیساکہ
ترمذی شریف میں حضرت جابر بن سمرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے۔( ترمذی، کتاب الادب، باب ما جاء فی انشاد الشعر، ۴ / ۳۸۶، الحدیث: ۲۸۵۹)
اورامام
شعبی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے
ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا شعر کہتے تھے
اورحضرت علی کَرَّمَ اللہ
تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ان دونوں سے زیادہ شعر فرمانے والے تھے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۷، ۳ / ۴۰۰)
{وَ ذَكَرُوا اللّٰهَ
كَثِیْرًا: اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا۔} یعنی صالحین کیلئے
شاعری اللہ تعالٰی کو کثرت سے یاد کرنے اور تلاوتِ قرآن کرنے سے غفلت کا سبب نہ
بن سکی بلکہ ان لوگوں نے جب شعر کہے بھی تو ان میں اللہ تعالٰی کی حمد و ثناء
اور اس کی توحید بیان کی۔ رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعت، صحابۂ
کرام اور امت کے نیک لوگوں کی تعریف بیان کی اور اپنے اشعار
میں حکمت، وعظ و نصیحت اور زہد و اَدب پر مشتمل باتیں ذکر
کیں ۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۷، ص۸۳۵-۸۳۶)
ایسی
شاعری کی اردو میں بہترین مثال اعلیٰ حضرت امام احمد رضا
خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ کا لکھا ہواکلام
بنام ’’حدائقِ بخشش‘‘ ہے، جس میں آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اچھی شاعری کے
تمام پہلو انتہائی احسن انداز میں بیان کئے ہیں۔ اس کلام کا
مطالعہ کرنا بھی دل میں اللہ تعالٰی اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا عشق، صحابہ ٔ
کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ اور اولیاءِ عظام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کی عظمت پیدا کرنے
کا ایک ذریعہ ہے، لہٰذا اس کا بھی مطالعہ کرنا چاہئے۔
{وَ انْتَصَرُوْا مِنْۢ
بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا: اورمظلوم ہونے کے بعد بدلہ لیا۔} یعنی اگر ان کے اشعار میں کسی کی
برائی بیان بھی ہوئی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ کفارنے مسلمانوں کی
اور اُن کے پیشواؤں کی جھوٹی برائی بیان کر کے ان پر ظلم کیا تو ان
حضرات نے شعروں کے ذریعے ا س ظلم کا بدلہ لیا اور کافروں کو
اشعار کی صورت میں ان کی بدگوئیوں کے جواب دیئے، لہٰذا وہ
مذموم نہیں ہیں ۔( روح البیان ، الشعراء
، تحت الآیۃ : ۲۲۷ ، ۶ / ۳۱۶، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۷، ۳ / ۴۰۰، جلالین، الشعراء، تحت
الآیۃ: ۲۲۷، ص۳۱۷) بلکہ
وہ اس پر اجرو ثواب کے مستحق ہیں کیونکہ یہ ان حضرات کا زبان سے جہاد
ہے۔
زبانی جہاد سے متعلق دو
اَحادیث:
آیت
کی مناسبت سے یہاں زبانی جہاد سے متعلق دو اَحادیث ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ
دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم اپنے مالوں ،اپنے ہاتھوں اور
اپنی زبانوں کے ساتھ مشرکوں سے جہاد کرو۔( سنن نسائی، کتاب الجہاد، باب وجوب الجہاد، ص۵۰۳، الحدیث: ۳۰۹۳)
(2)…حضرت کعب بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور
اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مومن اپنی تلوار سے بھی جہاد کرتا ہے اور
اپنی زبان سے بھی،اور اس ذات کی قسم!جس کے قبضہِ قدرت میں میری جان
ہے،تم اسی شعر سے ان کفار کو تیروں کے مارنے کی طرح مارتے ہو۔( مسند امام احمد، من مسند القبائل، حدیث کعب بن
مالک رضی اللّٰہ عنہ، ۱۰ / ۳۳۵، الحدیث: ۲۷۲۴۴)
{وَ سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ
ظَلَمُوْا: اورعنقریب ظالم جان
لیں گے۔} یعنی جن مشرکین نے حضور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جھوٹی
برائیاں بیان کی ہیں حالانکہ ان کی شان تو یہ ہے کہ وہ پاک
ہیں اور پاک کرنے والے ہیں تو یہ مشرکین عنقریب مرنے کے بعد
جان لیں گے کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ’’وہ جہنم کی طرف پلٹا
کھائیں گے اورجہنم بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۷، ۳ / ۴۰۰)