banner image

Home ur Surah Ash Shuara ayat 78 Translation Tafsir

اَلشُّـعَرَاء

Surah Ash Shuara

HR Background

فَاِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّیْۤ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ(77)الَّذِیْ خَلَقَنِیْ فَهُوَ یَهْدِیْنِ(78)وَ الَّذِیْ هُوَ یُطْعِمُنِیْ وَ یَسْقِیْنِ(79)وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْنِ(80)وَ الَّذِیْ یُمِیْتُنِیْ ثُمَّ یُحْیِیْنِ(81)

ترجمہ: کنزالایمان بیشک وہ سب میرے دشمن ہیں مگر پروردگارِ عالم۔ وہ جس نے مجھے پیدا کیا تو وہ مجھے راہ دے گا۔ اور وہ جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔ اور جب میں بیمار ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔ اور وہ مجھے وفات دے گا پھر مجھے زندہ کرے گا۔ ترجمہ: کنزالعرفان بیشک وہ سب میرے دشمن ہیں سوائے سارے جہانوں کے پالنے والے کے۔ جس نے مجھے پیدا کیا تو وہ مجھے ہدایت دیتا ہے۔ اور وہ جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔ اور جب میں بیمار ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔ اور وہ جومجھے وفات دے گا پھر مجھے زندہ کرے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّیْ: بیشک وہ سب میرے دشمن ہیں ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی 4آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مزید فرمایا: ’’بیشک وہ سب بت میرے دشمن ہیں ،میں  گوارانہیں  کرسکتا کہ میں  یا کوئی دوسرا ان کی عبادت کرے، البتہ پروردگارِ عالَم وہ ہستی ہے جومیرا رب عَزَّوَجَلَّ ہے، میں  صرف اسی کی عبادت کرتا ہوں  کیونکہ وہی عبادت کا مستحق ہے اور اس کے اَوصاف یہ ہیں  کہ وہ مجھے عدم سے وجود میں  لایا اور اپنی طاعت کے لئے بنایا، تو وہی میری رہنمائی کرتا ہے اور مجھے ہدایت پر رکھتا ہے اور وہی مجھے اپنا خلیل بننے کے آداب کی ہدایت دے گا جیساکہ پہلے دین و دنیا کی مَصلحتوں  کی ہدایت فرما چکا ہے، وہی مجھے کھلاتا، پلاتا ہے اور مجھے روزی دینے والا ہے،جب میں  بیمار ہوتا ہوں  تو وہی میرے اَمراض دور کر کے مجھے شفا دیتا ہے اور وہی مجھے وفات دے گا، پھر آخرت میں  مجھے زندہ کرے گا کیونکہ موت اور زندگی اُسی کے قبضہ ِقدرت میں  ہے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۷۷-۸۱، ۳ / ۳۸۹، جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۷۷-۸۱، ص۳۱۲،  مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ:۷۷-۸۱، ص۸۲۲، ملتقطاً)

{وَ اِذَا مَرِضْتُ: اور جب میں  بیمار ہوں ۔} یہاں  حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ادب کی وجہ سے بیماری کو اپنی طرف اور شفاء کو اللہ تعالٰی کی طرف منسوب فرمایا اگرچہ بیماری اور شفا دونوں  اللہ تعالٰی کی طرف سے ہوتی ہیں ۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۸۰، ۳ / ۳۸۹) اس سے معلو م ہوا کہ برائی کی نسبت اپنی طرف اور خوبی و بہتری کی نسبت اللہ تعالٰی کی طرف کرنی چاہیے۔