Home ≫ ur ≫ Surah At Takasur ≫ ayat 3 ≫ Translation ≫ Tafsir
كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ(3)ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَﭤ(4)كَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْیَقِیْنِﭤ(5)لَتَرَوُنَّ الْجَحِیْمَ(6)ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَیْنَ الْیَقِیْنِ(7)ثُمَّ لَتُسْــٴَـلُنَّ یَوْمَىٕذٍ عَنِ النَّعِیْمِ(8)
تفسیر: صراط الجنان
{كَلَّاسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ: ہاں ہاں اب جلد جان جاؤ گے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی 5آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو!ہاں ہاں اب نزع کے وقت کثرتِ مال کی حرص اور اولاد پر فخر و غرور کرنے کے برے نتیجے کو جلد جان جاؤ گے،پھر یقینا تم قبروں میں جلد جان جاؤ گے، یقینا اگر تم مال کی حرص کا انجام یقینی علم کے ساتھ جانتے تو مال کی حرص میں مبتلا ہو کر آخرت سے غافل نہ ہوتے۔بیشک تم مرنے کے بعد ضرور جہنم کو دیکھو گے، پھر بیشک تم ضرور اسے یقین کی آنکھ سے دیکھو گے،پھر بیشک ضرور قیامت کے دن تم سے ان نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا جو اللّٰہ تعالیٰ نے تمہیں عطا فرمائی تھیں جیسے صحت، فراغت، امن ، عیش اور مال وغیرہ جن سے تم دنیا میں لذتیں اُٹھاتے تھے اور ان کے بارے میں یہ پوچھا جائے گا کہ یہ چیزیں کس کام میں خرچ کیں ؟ان کا کیا شکرادا کیا؟ اوران نعمتوں کا شکر ترک کرنے پر انہیں عذاب کیاجائے گا۔( خازن ، التّکاثر ، تحت الآیۃ : ۳-۸ ، ۴ / ۴۰۴ ، مدارک، التّکاثر، تحت الآیۃ: ۳-۸، ص۱۳۷۱، جلالین، التّکاثر، تحت الآیۃ: ۳-۸، ص۵۰۶، ملتقطاً)
قیامت کے دن ہر نعمت کے بارے میں پوچھا جائے گا:
اس سورت کی آیت نمبر8 سے معلوم ہو اکہ قیامت کے دن ہر نعمت کے بارے میں سوال ہو گا چاہے وہ نعمت جسمانی ہو یا روحانی، ضرورت کی ہو ، یا عیش و راحت کی حتّٰی کہ ٹھنڈے پانی، درخت کے سائے اور راحت کی نیند کے بارے میں بھی سوال ہو گا۔ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا ‘‘(بنی اسرائیل:۳۶)
ترجمہ ٔکنزُالعِرفان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
اور حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، جب یہ آیت ’’ثُمَّ لَتُسْــٴَـلُنَّ یَوْمَىٕذٍ عَنِ النَّعِیْمِ ‘‘ نازل ہوئی توصحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، ہم سے کس نعمت کے بارے میں پوچھا جائے گا(حالانکہ) ہمارے پاس تو صرف یہی دو سیاہ چیزیں (یعنی کھجور اور پانی) ہیں ،دشمن حاضر ہے اور تلواریں ہمارے کندھوں پر ہیں ؟ارشاد فرمایا’’عنقریب ایساہی ہو گا۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب و من سورۃ الہٰکم التّکاثر، ۵ / ۲۳۵، الحدیث: ۳۳۶۸)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن بندے سے سب سے پہلے نعمت کے بارے میں سوال ہو گا،اس سے پوچھا جائے گا؛کیا ہم نے تمہیں جسمانی صحت نہ دی اور ٹھنڈے پانی سے سیراب نہ کیا؟( ترمذی، کتاب التفسیر، باب و من سورۃ الہٰکم التّکاثر، ۵ / ۲۳۶، الحدیث: ۳۳۶۹)
حضرت عبد اللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن انسان کے قدم نہ ہٹیں گے حتّٰی کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ (1) اس کی عمر کے بارے میں کہ کس چیز میں خرچ کی۔ (2) اس کی جوانی کے بارے میں کہ کس کام میں گزری ۔ (3،4) اس کے مال کے بارے میں کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ (5) اس کے علم کے بارے میں کہ ا س پر کتنا عمل کیا۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ و الرقائق و الورع، باب فی القیامۃ، ۴ / ۱۸۸، الحدیث: ۲۴۲۴)
اللّٰہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اپنی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اورہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ یہ دعا مانگا کرے: ’’رَبِّ اَوْزِعْنِیْۤ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَ عَلٰى وَالِدَیَّ وَ اَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ وَ اَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ ﱂاِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْكَ وَ اِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘(احقاف:۱۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے میرے رب!مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پراور میرے ماں باپ پر فرمائی ہے اور میں وہ کام کروں جس سے تو راضی ہوجائے اور میرے لیے میری اولاد میں نیکی رکھ،میں نے تیریطرف رجوع کیااور میں مسلمانوں میں سے ہوں ۔