banner image

Home ur Surah At Takwir ayat 7 Translation Tafsir

اَلتَّكْوِيْر

At Takwir

HR Background

اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ(1)وَ اِذَا النُّجُوْمُ انْكَدَرَتْ(2)وَ اِذَا الْجِبَالُ سُیِّرَتْ(3)وَ اِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ(4)وَ اِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ(5)وَ اِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ(6)وَ اِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ(7)وَ اِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىٕلَتْ(8)بِاَیِّ ذَنْۢبٍ قُتِلَتْ(9)وَ اِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ(10)وَ اِذَا السَّمَآءُ كُشِطَتْ(11)وَ اِذَا الْجَحِیْمُ سُعِّرَتْ(12)وَ اِذَا الْجَنَّةُ اُزْلِفَتْ(13)عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّاۤ اَحْضَرَتْﭤ(14)

ترجمہ: کنزالایمان جب دھوپ لپیٹی جائے اور جب تارے جھڑ پڑیں اور جب پہاڑ چلائے جائیں اور جب تھلکی اونٹنیاں چھوٹی پھریں اور جب وحشی جانور جمع کئے جائیں اور جب سمندر سلگائے جائیں اور جب جانوں کے جوڑ بنیں اور جب زندہ دبائی ہوئی سے پوچھا جائے کس خطا پر ماری گئی اور جب نامۂ اعمال کھولے جائیں اور جب آسمان جگہ سے کھینچ لیا جائے اور جب جہنم کوبھڑکایا جائے اور جب جنت پاس لائی جائے ہر جان کو معلوم ہوجائے گا جو حاضر لائی۔ ترجمہ: کنزالعرفان جب سورج کو لپیٹ دیاجائے گا۔ اور جب تارے جھڑ پڑیں گے۔ اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے۔ اور جب دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں چھوٹی پھریں گی۔ اور جب وحشی جانور جمع کئے جائیں گے۔ اور جب سمندر سلگائے جائیں گے۔ اور جب جانوں کوجوڑا جائے گا ۔ اور جب زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا۔ کس خطا کی وجہ سے اسے قتل کیا گیا؟ اور جب نامۂ اعمال کھولے جائیں گے۔ اور جب آسمان کھینچ لیا جائے گا۔ اور جب جہنم بھڑکائی جائے گی ۔ اور جب جنت قریب لائی جائے گی ۔ ہر جان کو معلوم ہوجائے گا جو حاضر لائی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ: جب سورج کو لپیٹ دیاجائے گا۔} اس سورت کی ابتدائی 14آیات میں  12چیزوں  کو ذکر کیا گیا ہے۔

(1)…جب سورج کے نور کوزائل کر دیا جائے گا ۔

(2)… جب ستارے جھڑکر بارش کی طرح آسمان سے زمین پر گر پڑیں  گے اور کوئی ستارہ اپنی جگہ پر باقی نہ رہے گا۔

(3)… جب پہاڑ چلائے جائیں  گے اور غبار کی طرح ہوا میں  اڑتے پھریں  گے۔

(4)… جب وہ اونٹنیاں  جن کے حمل کو دس مہینے گذر چکے ہوں  گے اور ان کا دودھ نکالنے کا وقت قریب آگیا ہو گا، آزاد پھریں  گی کہ ان کو نہ کوئی چرانے والا ہو گا اورنہ ان کا کوئی نگراں  ہو گا ، اس دن کی دہشت اور ہَولْناکی کا یہ عالَم ہو گا اور لوگ اپنے حال میں  ایسے مبتلا ہوں  گے کہ ان اونٹنیوں کی پرواہ کرنے والا کوئی نہ ہو گا۔

(5)… جب قیامت کے دن دوبارہ زندہ کئے جانے کے بعد وحشی جانور جمع کیے جائیں  گے تاکہ وہ ایک دوسرے سے بدلہ لیں ، پھر خاک کردیئے جائیں ۔

(6)… جب سمندر سلگائے جائیں  گے،پھر وہ خاک ہو جائیں گے ۔

(7)… جب جانوں  کے جوڑ بنیں  گے۔ مفسرین نے اس کے مختلف معنی بیان کئے ہیں (1) نیک لوگ نیکوں  کے ساتھ اور برے لوگ بروں  کے ساتھ کر دئیے جائیں  گے۔ ــــ(2)جانیں  اپنے جسموں کے ساتھ یا اپنے عملوں  کے ساتھ ملادی جائیں  گی۔(3) ایمانداروں  کی جانیں  حوروں کے ساتھ اور کافروں کی جانیں  شَیاطِین کے ساتھ ملادی جائیں  گی۔(4) روحیں  اپنے جسموں  کی طرف لوٹا دی جائیں  گی۔

 (8)… جب اس لڑکی سے پوچھا جائے گا جو زندہ دفن کی گئی ہو کہ کس خطا کی وجہ سے اسے قتل کیا گیا؟۔اہلِ عرب کا دستور تھا کہ زمانۂ جاہلیّت میں  وہ لڑکیوں  کو زمین میں زندہ دفن کردیتے تھے اور یہ سوال قاتل کی سرزنش کے لئے ہوگا تاکہ و ہ لڑکی جواب دے کہ میں  بے گناہ ماری گئی تھی۔

(9)… جب نامۂ اعمال حساب کے لئے کھولے جائیں  گے۔

(10)…جب آسمان اپنی جگہ سے ایسے کھینچ لیا جائے گا جیسے ذبح کی ہوئی بکری کے جسم سے کھال کھینچ لی جاتی ہے۔

 (11)… جب جہنم کو اللّٰہ تعالیٰ کے دشمنوں  کے لئے بھڑکایا جائے گا۔

(12)… اور جب جنت کو اللّٰہ تعالیٰ کے پیاروں  کے قریب لایا جائے گا۔اس کے بعد فرمایا کہ جب یہ 12چیزیں  واقع ہوں  گی تو اس وقت ہر جان کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ کون سی نیکی یا بدی اپنے ساتھ لے کر حاضر ہوئی ہے۔( خازن ، التکویر ، تحت الآیۃ : ۱-۱۴ ، ۴ / ۳۵۵- ۳۵۶، مدارک، تحت الآیۃ: ۱-۱۴، ص۱۳۲۴-۱۳۲۵، جلالین مع صاوی، التکویر، تحت الآیۃ: ۱-۱۴، ۶ / ۲۳۱۹-۲۳۲۱، ملتقطاً)

{وَ اِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىٕلَتْ: اور جب زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائیگا۔} حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے اس آیت کے بارے میں  پوچھا گیا تو انہوں  نے نام لے کر فرمایا’’ایک صاحب تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی بارگاہ میں  حاضر ہوئے اور عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، میں  نے زمانۂ جاہلیّت میں  اپنی آٹھ بیٹیوں  کو زندہ زمین میں  دفن کر دیا تھا (اب میرے لئے کیا حکم ہے) نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم ہر بیٹی کی طرف سے ایک غلام آزاد کر دو۔اس شخص نے دوبارہ عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، (میرے پاس غلام نہیں  ہیں  البتہ) میں  اونٹوں  کا مالک ہوں ۔ارشاد فرمایا:’’اگر تم چاہو تو ہر بیٹی کے بدلے ایک اونٹ ہدیہ کر دو۔( معجم الکبیر، باب القاف، من اسمہ: قیس، قیس بن عاصم المنقری، ۱۸ / ۳۳۷، الحدیث: ۸۶۳)

بیٹیو ں  سے متعلق دین ِاسلام کا عظیم کارنامہ:

            یہ دین ِاسلام کا ہی عظیم کارنامہ ہے جس نے بیٹیوں  کو اپنے لئے بدنامی کا باعث سمجھ کرزمین میں  زندہ دفن کر دینے والے لوگوں  کو اس انسانیّت کُش ظلم کا احساس دلا یا اوران لوگوں  کی نظروں  میں  بیٹی کی عزت اور وقار قائم کیا اور بیٹیوں  کے فضائل بیان کر کے معاشرے میں  برسوں  سے جاری اس دردناک عمل کا خاتمہ کر دیا ، اس سے معلوم ہو اکہ اسلا م عورتوں  پر ظلم نہیں  کرتا بلکہ انہیں  ہر طرح کے ظلم سے بچاتا ہے، چاہے وہ ظلم ان کی ناحق زندگی ختم کر کے کیا جائے یا ان کی عزت و ناموس اور ان کے جسم کے ساتھ کھیل کر یا ان کے جسم کی نمائش کروا کر کیا جائے۔اس سے ان لوگوں  کو اپنے طرزِ عمل پر غور کرنا چاہئے جوعورت کے بارے دین ِاسلام کے اَحکامات کو اس کے اوپر ظلم قرار دیتے ہیں ، چادر و چار دیواری کو عورت کے حق میں  ناانصافی کہتے ہیں  اورروشن خیالی اور نام نہادتہذیب و تَمَدُّن کے نام پر عورت کوشرم و حیا سے عاری کرنے میں  اسلام کی شان سمجھتے ہیں ۔

{وَ اِذَا الْجَحِیْمُ سُعِّرَتْ: اور جب جہنم بھڑکائی جائے گی۔} اس سے مراد یہ ہے کہ قیامت کے دن جہنم کی بھڑک میں  مزید اضافہ کیا جائے گا تاکہ وہ کفار کو ہمیشہ کے لئے جلاتی رہے ورنہ جہنم تو جب سے پیدا کی گئی ہے تب سے ہی بھڑک رہی ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جہنم کی آگ ایک ہزار سال بھڑکائی گئی یہاں  تک کہ وہ سرخ ہو گئی،پھر ایک ہزار سال بھڑکائی گئی یہاں  تک کہ وہ سفید ہو گئی،پھر ایک ہزار سال بھڑکائی گئی یہاں  تک کہ وہ سیاہ ہو گئی،اب وہ ا نتہائی سیاہ ہے۔( ترمذی، کتاب صفۃ جہنم، ۸-باب منہ، ۴ / ۲۶۶، الحدیث: ۲۶۰۰)

{عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّاۤ اَحْضَرَتْ: ہر جان کو معلوم ہوجائے گا جو حاضر لائی۔} جب لوگوں  کو اپنے کئے ہوئے اچھے برے اعمال معلوم ہوں  گے تو اس وقت ان کا جو حال ہو گا اس کے بارے میں  ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ’’یَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُّحْضَرًا ﳝ- وَّ مَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْٓءٍۚۛ-تَوَدُّ لَوْ اَنَّ بَیْنَهَا وَ بَیْنَهٗۤ اَمَدًۢا بَعِیْدًاؕ-وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗؕ-وَ اللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ‘‘(ال عمران:۳۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: (یاد کرو)جس دن ہر شخص اپنے تمام اچھے اور برے اعمال اپنے سامنے موجود پائے گا توتمنا کرے گاکہ کاش اس کے درمیان اور اس کے اعمال کے درمیان کوئی دور دراز کی مسافت (حائل) ہوجائے اور اللّٰہ تمہیں  اپنےعذاب سے ڈراتا ہے اور اللّٰہ بندوں  پر بڑامہربان ہے۔

            ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ ان آیات میں  زیادہ سے زیادہ غور کرے تاکہ ا س کے دل میں  اللّٰہ تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اوراسے گناہوں  سے بچنے اور نیک اعمال کرنے کی سوچ نصیب ہو۔