Home ≫ ur ≫ Surah Az Zukhruf ≫ ayat 25 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ كَذٰلِكَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّذِیْرٍ اِلَّا قَالَ مُتْرَفُوْهَاۤۙ-اِنَّا وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰۤى اُمَّةٍ وَّ اِنَّا عَلٰۤى اٰثٰرِهِمْ مُّقْتَدُوْنَ(23)قٰلَ اَوَ لَوْ جِئْتُكُمْ بِاَهْدٰى مِمَّا وَجَدْتُّمْ عَلَیْهِ اٰبَآءَكُمْؕ-قَالُوْۤا اِنَّا بِمَاۤ اُرْسِلْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ(24)فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ(25)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ كَذٰلِكَ: اور ایسے ہی۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا’’ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اپنے باپ دادا کی اندھی پیروی کے علاوہ شرک کی کوئی اوردلیل نہ دے سکنا صرف آپ کی قوم کے کفار کا ہی خاصہ نہیں بلکہ ہم نے آپ سے پہلے جب کسی شہر میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کوئی ڈر سنانے والا بھیجا تووہاں کے خوشحال مالداروں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک دین پر پایا اور ہم ان کے نقشِ قدم کی ہی پیروی کرنے والے ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ باپ دادا کی اندھے بن کرپیروی کرناکفار کا پرانامرض ہے اور انہیں اتنی تمیز نہیں کہ کسی کی پیروی کرنے کے لئے یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ وہ خود سیدھی راہ پر ہو، چنانچہ جب کسی نبی سے فرمایا گیا کہ اپنی قوم کے کفار سے کہیں :کیا تم اپنے باپ دادا کے دین پر ہی چلو گے اگرچہ میں تمہارے پاس اس سے بہتر دین لے آؤں جس پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے؟تو انہوں نے ا س بات کے جواب میں کہا:جس دین کے ساتھ تمہیں بھیجا گیا ہے ہم اس کا انکار کرنے والے ہیں اگرچہ تمہارا دین حق و صواب ہو، مگر ہم اپنے باپ دادا کا دین چھوڑنے والے نہیں چاہے وہ کیسا ہی ہو، اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’جب یہ اپنے شرک پر ہی ڈٹے رہے تو ہم نے رسولوں کے نہ ماننے والوں اور اُنہیں جھٹلانے والوں سے بدلہ لیا تو اے کافرو! تم دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا؟۔( خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۲۳- ۲۵، ۴ / ۱۰۴، مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۲۳-۲۵، ص۱۰۹۸-۱۰۹۹، روح البیان، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۲۳-۲۵، ۸ / ۳۶۱-۳۶۲، ملتقطاً)
مال کا وبال:
خوش حال اورمالدار کفار کے طرزِ عمل سے معلوم ہوا کہ مال و دولت کی کثرت ،دنیا کی رنگینیوں اورعیش و نشاط کی وجہ سے انسان اپنی آخرت کے معاملے میں غفلت کا شکار ہو جاتا ہے اور ا س کی نگاہوں میں اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی وقعت اور ان کی بات کی ا ہمیت بہت کم ہو جاتی ہے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ان لوگوں کا کیا حال ہے جو دولت مندوں کی عزت کرتے ہیں اور عبادت گزاروں کو حقیر سمجھتے ہیں ،قرآنِ پاک کی ان آیات پر توعمل کرتے ہیں جو ان کی خواہشات کے موافق ہوں لیکن خواہشات کے خلاف آیتوں کو چھوڑ دیتے ہیں تو اس صورت میں وہ قرآن کی بعض آیتوں پر ایمان لاتے ہیں اور بعض آیتوں کاانکار کرتے ہیں ۔اس چیز کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو انہیں محنت کے بغیر حاصل ہو جائے گی اور وہ ان کی تقدیر اور ان کے حصے کا رزق ہے جبکہ ا س چیز کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے جس میں محنت کرنی پڑتی ہے۔( معجم الکبیر، ومن مسند عبد اللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ، ۱۰ / ۱۹۳، الحدیث: ۱۰۴۳۲) اللہ تعالیٰ ہم سب کو مال کے وبال سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔