Home ≫ ur ≫ Surah Az Zukhruf ≫ ayat 36 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَهٗ شَیْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِیْنٌ(36)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ: اور جو رحمٰن کے ذکر سے منہ پھیرے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ جو قرآنِ پاک سے اس طرح اندھا بن جائے کہ نہ اس کی ہدایتوں کو دیکھے اور نہ ان سے فائدہ اٹھائے توہم اس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں اوروہ شیطان دنیامیں بھی اندھا بننے والے کا ساتھی رہتا ہے کہ اسے حلال کاموں سے روکتا اور حرام کاموں کی ترغیب دیتا ہے،اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے منع کرتا اور اس کی نافرمانی کرنے کا حکم دیتا ہے اور آخرت میں بھی اس کا ساتھی ہو گا۔( صاوی، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۳۶، ۵ / ۱۸۹۴-۱۸۹۵، ملتقطاً)
دوسری تفسیریہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اس طرح اِعراض کرے کہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بے خوف ہو جائے اور اس کے عذاب سے نہ ڈرے توہم اس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں جو اسے گمراہ کرتا رہتا ہے اور وہ اس شیطان کا ساتھی بن جاتا ہے۔( تفسیرطبری، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۳۶، ۱۱ / ۱۸۸)
تیسری تفسیر یہ ہے کہ جو دُنْیَوی زندگی کی لذّتوں اور آسائشوں میں زیادہ مشغولیّت اورا س کی فانی نعمتوں اور نفسانی خواہشات میں اِنہماک کی وجہ سے قرآن سے منہ پھیرے تو ہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں اور وہ شیطان اس کے ساتھ ہی رہتا ہے اور اس کے دل میں وسوسے ڈال کر اسے گمراہ کرتا رہتا ہے۔ (ابوسعود، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۳۶، ۵ / ۵۴۳)
قرآن سے منہ پھیرنے والے کا ساتھی شیطان ہو گا:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ قرآن سے منہ پھیرنے والے کافر کا شیطان ساتھی بنا دیا جاتا ہے اورشیطان کو کافروں کا ساتھی بنانے سے متعلق ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ قَیَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَآءَ فَزَیَّنُوْا لَهُمْ مَّا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ وَ حَقَّ عَلَیْهِمُ الْقَوْلُ فِیْۤ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِۚ-اِنَّهُمْ كَانُوْا خٰسِرِیْنَ‘‘(حم السجدہ:۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ہم نے کافروں کیلئے کچھ ساتھی مقرر کردئیے توانہوں نے ان کیلئے ان کے آگے اور ان کے پیچھے کو خوبصورت بنا دیا۔ ان پر بات پوری ہوگئی جو ان سے پہلے گزرے ہوئے جنوں اور انسانوں کے گروہوں پرثابت ہوچکی ہے۔ بیشک وہ نقصان اٹھانے والے تھے۔
اورحضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ شَر کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کی موت سے ایک سال پہلے اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتا ہے تو وہ جب بھی کسی نیک کام کو دیکھتا ہے وہ اسے برا معلوم ہوتاہے یہاں تک کہ وہ اس پر عمل نہیں کرتا اور جب بھی وہ کسی برے کام کو دیکھتا ہے تو وہ اسے اچھا معلوم ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ اس پر عمل کرلیتا ہے۔( مسندالفردوس، باب الالف، ۱ / ۲۴۵، الحدیث: ۹۴۸)
البتہ یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ زیرِ تفسیر آیت میں جہاں کفار کے لئے وعید ہے وہیں ہمارے معاشرے کے ان مسلمانوں کے لئے بھی بڑی عبرت ہے جو دنیا کی زیب و زینت ، اس کی چمک دمک اور مال و دولت کے حصول میں حد درجہ مصروفیَّت کی وجہ سے قرآنِ پاک کی تلاوت کرنے ،اسے سمجھنے او ر ا س پر عمل کرنے سے محروم ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے اور قرآنِ مجید سے تعلق قائم رکھا رہنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
یاد رہے کہ زیرِ تفسیر آیت میں جس شیطان کا ذکر ہے یہ اس شیطان کے علاوہ ہے جس کا ذکر درج ذیل حدیثِ پاک میں ہے،چنانچہ
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’تم میں سے ہر شخص کے ساتھ ایک شیطان اور ایک فرشتہ مُسلَّط کر دیا گیا ہے۔صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کے ساتھ بھی؟ارشاد فرمایا: ’’میرے ساتھ بھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس شیطا ن کے مقابلے میں میری مدد فرمائی اور وہ مسلمان ہو گیا،اب وہ مجھے اچھی بات کے علاوہ کوئی بات نہیں کہتا۔(مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب تحریش الشیطان... الخ، ص۱۵۱۲، الحدیث: ۶۹(۲۸۱۴))
برا ساتھی اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ برا ساتھی اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے اوراچھا ساتھی نصیب ہونا اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ اچھے اور برے ساتھی کے بارے میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اچھے اور برے ہم نشین کی مثال ایسے ہے جیسے مشک اٹھانے والا اور بھٹی پھونکنے والا۔ ان میں سے جو مشک اٹھائے ہوئے ہے(اس کے ساتھ رہنے کا فائدہ یہ ہے کہ ) وہ تجھے اس میں سے دے گا یا تو ا س سے خرید لے گا یا تجھے مشک کی خوشبو پہنچے گی اور جو بھٹی پھونکنے والا ہے (اس کے ساتھ رہنے کا نقصان یہ ہے کہ) وہ تیرے کپڑے جلا دے گا یا تجھے بُری بو پہنچے گی۔( بخاری، کتاب الذبائح والصید... الخ، باب المسک، ۳ / ۵۶۷، الحدیث: ۵۵۳۴)
اورحضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا: فاجر سے بھائی چارہ نہ کر کہ وہ اپنے فعل کو تیرے لیے مُزَیَّن کرے گا اور یہ چاہے گا کہ تو بھی اس جیسا ہوجائے اور اپنی بدترین خصلت کو اچھا کرکے دکھائے گا، تیرے پاس اس کا آنا جانا عیب اور ننگ ہے اور(اسی طرح) اَحمق سے بھی بھائی چارہ نہ کر کہ وہ اپنے آپ کو مشقت میں ڈال دے گا اور تجھے کچھ نفع نہیں پہنچائے گااور کبھی یہ ہوگا کہ تجھے نفع پہنچانا چاہے گا مگر ہوگا یہ کہ نقصان پہنچادے گا، اس کی خاموشی بولنے سے بہتر ہے ،اس کی دوری نزدیکی سے بہتر ہے اور موت زندگی سے بہتر اور جھوٹے سے بھی بھائی چارہ نہ کر کہ اس کے ساتھ میل جول تجھے نفع نہ دے گا،وہ تیری بات دوسروں تک پہنچائے گا اور دوسروں کی تیرے پاس لائے گا اور اگر تو سچ بولے گا جب بھی وہ سچ نہیں بولے گا۔( ابن عساکر، حرف الطاء فی آباء من اسمہ علیّ، علیّ بن ابی طالب... الخ، ۴۲ / ۵۱۶)
اللہ تعالیٰ دنیا میں ہمیں اچھے اور نیک ساتھی عطا فرمائے اور برے ساتھیوں سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔