Home ≫ ur ≫ Surah Fatir ≫ ayat 32 ≫ Translation ≫ Tafsir
ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَاۚ-فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖۚ-وَ مِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌۚ-وَ مِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَیْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-ذٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِیْرُﭤ(32)
تفسیر: صراط الجنان
{ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا: پھر ہم نے کتاب کا وارث اپنے چُنے ہوئے بندوں کو کیا۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ کی طرف قرآنِ مجید کی وحی فرمائی پھر ہم نے اپنے چنے ہوئے بندوں کو اس کتاب کا وارث کیا۔حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : چنے ہوئے بندوں سے مراد نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمام امتوں پر فضیلت دی اورسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی غلامی و نیاز مندی کی کرامت و شرافت سے مشرف فرمایا ۔ (خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۵۳۵)
{ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ: تو ان میں کوئی اپنی جان پر ظلم کرنے والا ہے۔} آیت کے اس حصے سے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کے لوگوں کے تین مَدارِج اور مَراتب بیان کئے گئے ہیں (1)کوئی اپنی جان پر ظلم کرنے والا ہے۔(2) کوئی درمیانہ راستہ اختیار کرنے والا ہے ۔(3) کوئی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے بھلائیوں میں سبقت لے جانے والا ہے۔ان تینوں کے مِصداق کے بارے میں مفسرین کے کثیر اَقوال ہیں جو کہ تفاسیر میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں ،یہاں اُن میں سے ایک قول درج کیا جاتا ہے۔ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے فرمایا کہ سبقت لے جانے والے عہدِ رسالت کے وہ مخلص حضرات ہیں جن کے لئے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جنت اور رزق کی بشارت دی اور درمیانہ راستہ اختیار کرنے والے وہ اصحاب ہیں جو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے طریقہ پر عمل کرتے رہے اور اپنی جان پر ظلم کرنے والے ہم تم جیسے لوگ ہیں ۔ (المطالب العالیۃ، کتاب التفسیر، ۳۰-سورۃ فاطر، ۸ / ۲۶۳، الحدیث: ۳۷۰۰)
یہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کی طرف سے انتہائی اِنکساری کا اظہار تھا کہ اتنے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کے باوجود آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے اپنے آپ کو تیسرے طبقے میں شمار فرمایا ۔
یہاں ان تین مدارج کے افراد سے متعلق دو اَحادیث بھی ملاحظہ ہوں ،چنانچہ ایک حدیث شریف میں ہے، حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا کہ’’ ہمارا سبقت لے جانے والا تو سبقت لے جانے والا ہی ہے اور درمیانہ راستہ اختیار کرنے والے کی نجات ہے جبکہ ظالم کی مغفرت ہے۔( کنز العمال، کتاب الاذکار، قسم الاقوال، الباب السابع، الفصل الرابع، ۱ / ۶، الجزء الثانی، الحدیث: ۲۹۲۲)
اوردوسری حدیث میں ہے، حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’نیکیوں میں سبقت لے جانے والا جنت میں بے حساب داخل ہوگا اور مُقْتَصِدْ سے حساب میں آسانی کی جائے گی اور ظالم مقامِ حساب میں روکا جائے گا ،اس کو پریشانی پیش آئے گی پھر وہ جنت میں داخل ہوگا۔ (بغوی، فاطر، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۴۹۳)
{ذٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِیْرُ: یہ ہی بڑا فضل ہے۔} یعنی نیکیوں میں دوسروں سے آگے بڑھ جانا ہی اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے اور یہ صرف اسی کی توفیق سے ملتا ہے۔بعض مفسرین نے ا س آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ چنے ہوئے بندوں کو کتاب کا وارث بنانا ہی اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے ۔ (ابو سعود، فاطر، تحت الآیۃ: ۳۲، ۴ / ۳۷۰، خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۵۳۶، ملتقطاً)