Home ≫ ur ≫ Surah Fussilat ≫ ayat 30 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ(30)
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ: بیشک جنہوں نے کہا :ہمارا رب اللہ ہے۔} اس سے پہلی آیات میں کافروں کے لئے وعیدیں بیان ہوئیں اور اب یہاں سے ایمان والوں کے لئے وعدہ کا بیان کیا جا رہاہے ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک وہ لوگ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے رب ہونے اور اس کی وحدانیّت کا اقرار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا رب صرف اللہ تعالیٰ ہے،پھر وہ اس اقرار اور اس کے تقاضوں پر ثابت قدم رہے، ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتے اترتے ہیں اور انہیں یہ بشارت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ تم آخرت میں پیش آنے والے حالات سے نہ ڈرواوراہل و عیال وغیرہ میں سے جو کچھ پیچھے چھوڑ آئے اس کا نہ غم کرو اور اس جنت پر خوش ہوجاؤجس کا تم سے دنیا میں اللہ تعالیٰ کے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مُقَدّس زبان سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔( روح البیان، حم السجدۃ، تحت الآیۃ: ۳۰، ۸ / ۲۵۴-۲۵۵)
اس آیت میں اِستقامت کا ذکر ہوا ،ا س مناسبت سے یہاں اِستقامت کے بارے میں دو اَحادیث اور خلفائے راشدین کے اَقوال ملاحظہ ہوں ،چنانچہ
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت پڑھی ’’اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا‘‘ پھرآپ نے فرمایا:لوگوں نے یہ کہا،یعنی ہمارارب اللہ ہے، پھران میں سے اکثرکافرہوگئے ۔تو جوشخص اسی قول (کہ ہمارا رب اللہ ہے) پرڈٹارہاحتّٰی کہ مرگیا،وہ ان لوگوں میں سے ہے جو اس قول پر ثابت قدم رہے۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ حم السجدۃ، ۵ / ۱۶۸، الحدیث: ۳۲۶۱)
حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،میں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے اسلام کے بارے میں کوئی ایسی بات بتائیے کہ میں آپ کے بعد کسی اور سے (اس بارے میں ) سوال نہ کروں ۔ارشاد فرمایا’’تم کہو:میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا،پھر ا س (اقرار) پر ثابت قدم رہو۔( مسلم، کتاب الایمان، باب جامع اوصاف الاسلام، ص۴۰، الحدیث: ۶۲(۳۸))
حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے دریافت کیا گیا :اِستقامت کیا ہے ؟آپ نے فرمایا :اِستقامت یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے۔
حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا :اِستقامت یہ ہے کہ بندہ اَمرونہی (یعنی احکامات پر عمل کرنے اور ممنوعات سے بچنے) پر قائم رہے اورلومڑی کی طرح حیلہ سازیاں کرکے راہِ فراراختیارنہ کرے۔
حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا :اِستقامت یہ ہے کہ بندہ عمل میں اخلاص پیدا کرے ۔
حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا: اِستقامت یہ ہے کہ بندہ فرائض (کو پابندی کے ساتھ) ادا کرے۔( خازن، فصلت، تحت الآیۃ: ۳۰، ۴ / ۸۵)
ان اَحادیث اور اَقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کے اقرار اور اخلاص کے ساتھ نیک اعمال کرنے پر ثابت قدم رہے۔
اس آیت میں فرشتوں کی طرف سے مومن کو بشارت دئیے جانے کا بھی ذکر ہوا،اس کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ موت کے وقت فرشتے اترتے ہیں اور مومن کو آخرت میں پیش آنے والے اَحوال یا ایمان سَلب ہونے کا خوف اوراہل و عیال کے چھوٹنے کا یا گناہوں کا غم نہ کرنے کا کہتے اور اسے جنت کی بشارت دیتے ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ جب مومن قبروں سے اٹھیں گے تو فرشتے انہیں یہ بشارت دیں گے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مومن کو تین بار بشارت دی جاتی ہے ایک موت کے وقت ، دوسری قبر میں اورتیسری قبروں سے اٹھنے کے وقت۔( مدارک، فصلت، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۱۰۷۵، خازن، فصلت، تحت الآیۃ: ۳۰، ۴ / ۸۵، ملتقطاً)
ایک قول یہ ہے کہ ایمان والوں پرفرشتے اترتے ہیں اور انہیں دینی اوردُنْیَوی جو مشکلات پیش آتی ہیں ، اِن میں اُن کی اس چیز کے ساتھ امدادکرتے ہیں جو ان کے سینوں کو کشادہ کر دے اور اِلہام کے ذریعے ان کے خوف اور غم کو اسی طرح دورکردیتے ہیں ۔ (روح المعانی، فصلت، تحت الآیۃ: ۳۰، ۱۲ / ۵۱۰)