banner image

Home ur Surah Fussilat ayat 8 Translation Tafsir

حٰمٓ اَلسَّجْدَۃ (فُصِّلَت)

Fussilat

HR Background

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ(8)

ترجمہ: کنزالایمان بے شک جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے ان کے لیے بے انتہا ثواب ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان بیشک ایمان لانے والوں اور اچھے اعمال کرنے والوں کیلئے بے انتہا ثواب ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: بیشک جو ایمان لائے۔} اس سے پہلی آیت میں  کافروں  کے لئے وعید بیان ہوئی اور اس آیت میں  ایمان والوں  کے لئے وعدہ کا ذکر ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ بیشک ایمان لانے والوں  اور اچھے اعمال کرنے والوں  کیلئے بے انتہا ثواب ہے جو مُنقطع نہ ہوگا ۔

            اس آیت کی تفسیر میں  یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت بیماروں  ، اپاہجوں  اوران بوڑھوں  کے حق میں  نازل ہوئی جو عمل اورطاعت کے قابل نہ رہے ، انہیں  اب بھی وہی اجر ملے گا جو تندرستی کے زمانے میں  عمل کرنے پر ملا کرتا تھا۔( تفسیرکبیر، فصلت، تحت الآیۃ: ۸، ۹ / ۵۴۳)

مسلمانوں  کے نیک اعمال کاثواب بیماری اور بڑھاپے وغیرہ میں  مُنقطع نہیں  ہوتاـ:

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ اللہ تعالیٰ (اپنے فضل و کرم سے) مسلمانوں  کو ان کے نیک اعمال کا بے انتہا ثواب عطا فرماتا ہے اور یہ بھی معلوم ہو اکہ جو مسلمان تندرستی اور صحت کے اَیّام میں  کوئی نیک عمل پابندی کے ساتھ کیاکرتا تھا، پھر بیماری،معذوری یا بڑھاپے وغیرہ کی وجہ سے وہ نیک عمل نہ کر سکا تو ان اَیّام میں  عمل نہ کرنے کے باوجود اسے اسی نیک عمل کا ثواب ملتا رہے گا،یہ مضمون کثیر اَحادیث میں  بھی بیان کیا گیا ہے ،ان میں  سے تین اَحادیث درج ذیل ہیں ،

 (1)…حضرت ابوموسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب کوئی بندہ بیمارہوجائے یاکسی سفرپرجائے تواسے اس کے ان نیک اعمال کااجرملتارہے گاجو وہ صحت کے اَیّام میں  اورحالت ِاقامت میں  کیاکرتاتھا۔( بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب یکتب للمسافر مثل ما کان یعمل فی الاقامۃ، ۲ / ۳۰۸، الحدیث: ۲۹۹۶)

(2)…حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ جب بندہ عبادت کے اچھے راستے پر ہوتا ہے، پھر بیمار ہوجاتا ہے تو اس پر مقرر فرشتے سے کہا جاتا ہے: تم اس کی تندرستی کے زمانہ کے برابر اعمال لکھتے رہو یہاں  تک کہ میں  اسے شفادے دوں  یا اسے اپنے پاس بلالوں ۔( مسند امام احمد، مسند عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص رضی اللّٰہ تعالی عنہما، ۲ / ۶۴۸، الحدیث: ۶۹۱۲)

(3)…حضرت عتبہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مومن کا اپنی بیماری پربے قرارہونا تعجب خیز ہے ،اگراسے معلوم ہوجائے کہ اس کی بیماری میں  کتناثواب ہے تووہ یہ چاہے گاکہ ساری زندگی بیمارہی رہے، پھرحضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آسمان کی طرف سراٹھاکرمسکرائے تو آپ سے عرض کی گئی : آپ آسمان کی طرف دیکھ کر کیوں  مسکرائے؟ ارشاد فرمایا: ’’مجھے دوفرشتوں  کودیکھ کرتعجب ہوا،وہ نماز پڑھنے کی ایک جگہ میں  وہاں  نمازپڑھنے والے کوڈھونڈ رہے تھے،جب اس جگہ وہ نمازی نہیں  ملاتو فرشتے واپس چلے گئے ،پھرانہوں  نے عرض کی:اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، ہم تیرے فلاں  بندے کانیک عمل دن رات لکھتے تھے، اب ہمیں معلوم ہوا کہ تونے اسے اپنی (تقدیر کی) رسی سے باندھ لیاہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا’’تم میرے بندے کے اسی عمل کولکھتے رہوجووہ دن رات کیاکرتاتھااوراس میں  کوئی کمی نہ کرو اور میں  نے جتنے دن اسے روک لیاہے ان دنوں  کااجرمیرے ذمہ ِکرم پرہے اورجوعمل وہ کیاکرتاتھااس کا اجر اسے ملتا رہے گا۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: ابراہیم، ۲ / ۱۱، الحدیث: ۲۳۱۷)