banner image

Home ur Surah Ghafir ayat 56 Translation Tafsir

اَلْمُؤْمِن (اَلْغَافِر)

Surah Ghafir

HR Background

اِنَّ الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ بِغَیْرِ سُلْطٰنٍ اَتٰىهُمْۙ-اِنْ فِیْ صُدُوْرِهِمْ اِلَّا كِبْرٌ مَّا هُمْ بِبَالِغِیْهِۚ-فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ(56)

ترجمہ: کنزالایمان وہ جو اللہ کی آیتوں میں جھگڑا کرتے ہیں بے کسی سند کے جو انھیں ملی ہو ان کے دلوں میں نہیں مگر ایک بڑائی کی ہوس جسے نہ پہنچیں گے تو تم اللہ کی پناہ مانگو بے شک وہی سنتا دیکھتا ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان بیشک وہ جو اللہ کی آیتوں میں کسی ایسی دلیل کے بغیرجھگڑا کرتے ہیں جو انہیں ملی ہو ،ان کے دلوں میں نہیں مگر ایک بڑائی کی ہوس جس تک یہ پہنچ نہیں پائیں گے تو تم اللہ کی پناہ مانگو بیشک وہی سنتا دیکھتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ: بیشک وہ جو اللہ کی آیتوں  میں  جھگڑا کرتے ہیں ۔} اس آیت میں  جھگڑا کرنے والوں  سے مراد کفارِ قریش ہیں  ،یہ لوگ تکبر کیا کرتے تھے اور ان کا یہی تکبر ان کے تکذیب و انکار اور کفر کو اختیار کرنے کاسبب بناکیونکہ انہوں  نے یہ گوارا نہ کیا کہ کوئی ان سے اونچا ہو، اور یہ فاسد خیال کیا کہ اگر حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نبی مان لیں  گے تو ہماری اپنی بڑائی جاتی رہے گی،ہمیں  امتی اور چھوٹا بننا پڑے گا حالانکہ ہمیں  تو بڑا بننے کی ہوس ہے ،اس لئے انہوں  نے سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دشمنی کی۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :یہ لوگ جس چیز کی ہوس رکھتے ہیں  اسے نہ پا سکیں  گے اور انہیں بڑائی مُیَسَّر نہ آئے گی، بلکہ حضور ِاَکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مخالفت اور انکار، ان لوگوں کے حق میں  ذلت اور رسوائی کا سبب ہو گا، تو اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ حاسدوں  کے مکر اور ان کی سازشوں  سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگیں ، کیونکہ یقینا وہی ان کے اَقوال کو سنتا اور ان کے اَحوال کو دیکھتا ہے تو وہی ان کے خلاف آپ کی مدد کرے گا اور ان کے شر سے آپ کو بچائے گا۔( تفسیر کبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۵۶، ۹ / ۵۲۶، جلالین، غافر، تحت الآیۃ: ۵۶، ص۳۹۴، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۵۶، ص۱۰۶۲، ملتقطاً)

            ضد بازی اور جھگڑنے کی عادت آدمی کے حق قبول کرنے کی راہ میں  رکاوٹ بن جاتی ہے۔ جن لوگوں  کی یہ عادت ہوتی ہے کہ ہر معاملے میں  اپنی ہی رائے کو حرف ِ آخر سمجھتے ہیں  اور اس کے برخلاف کوئی رائے قبول کرنا گوارا نہیں  کرتے اور بہرصورت دوسرے کو نیچا ہی دکھانے کی کوشش کرتے ہیں  وہ حق قبول کرنے سے بہت دور ہوتے ہیں ۔