banner image

Home ur Surah Hud ayat 23 Translation Tafsir

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اَخْبَتُوْۤا اِلٰى رَبِّهِمْۙ-اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(23)

ترجمہ: کنزالایمان بیشک جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور اپنے رب کی طرف رجوع لائے وہ جنت والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ ترجمہ: کنزالعرفان بیشک جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے اورانہوں نے اپنے رب کی طرف رجوع کیا تو یہی لوگ جنتی ہیں ،وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:بیشک جو ایمان لائے ۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے دنیوی حالات اور اُخروی خسارے کا ذکر فرمایا، اس کے بعد اس آیت میں اہلِ ایمان کے دنیوی حالات اور اخروی فوائد بیان فرمائے ۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۲۳، ۲ / ۳۴۷)  اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ بے شک وہ لوگ جو ایمان لاتے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرتے ہیں اور عبادت کی ادائیگی کے وقت ان کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر سے مطمئن ہوتے ہیں اور اس وقت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ ’’ وَ اَخْبَتُوْۤا اِلٰى رَبِّهِمْ ‘‘ کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ثواب و عذاب کا جو بھی وعدہ فرمایا ہے اس کی سچائی پر ان کے دل مطمئن ہیں۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور اچھے عمل کئے اور اس بات سے ڈرتے رہے کہ کہیں ان کے اَعمال میں کوئی نَقص یا کمی نہ رہ گئی ہو۔ جن لوگوں میں یہ تین اَوصاف ہوں تو وہ جنتی ہیں اور وہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۲۳، ۶ / ۳۳۵)

اپنے اَعمال کی فکر کرنے کی ترغیب:

            ہمارے اَسلاف کا یہی حال تھا کہ وہ ایمان لانے اور نیک اعمال کرنے کے باوجود ان میں نقص یا کمی رہ جانے سے ڈرتے تھے بلکہ وہ عظیم المرتبت صحابی جن کے عدل وانصاف اور بہترین حکمرانی پر تاریخِ اسلام کو ناز ہے اور جنہیں دنیا میں ہی مالکِ جنت ،قاسمِ نعمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زبانِ اَقدس سے جنت کی بشارت مل گئی یعنی سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، وہ بھی اس معاملے میں خوفزدہ رہتے تھے، چنانچہ بخاری شریف میں ہے کہ جب حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر قاتلانہ حملہ ہوا اور شہادت کا وقت قریب آیا توایک انصاری نوجوان حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے: اے امیر المؤمنین! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہو کہ اسلام میں آپ کا جو مقام ہے وہ آپ جانتے ہیں ، پھر جب آپ خلیفہ بنائے گئے تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عدل وانصاف کیا اور اس کے بعد شہادت پائی۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ارشاد فرمایا : اے بھتیجے! کاش مجھے برابری پر چھوڑ دیا جائے کہ نہ عذاب ہو نہ ثواب۔ (بخاری، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم وابی بکر وعمر رضی اللہ عنہما، ۱ / ۴۶۹، الحدیث: ۱۳۹۲)

            اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے اَعمال کی فکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔