ترجمہ: کنزالایمان
بولا اے میری قوم بھلا بتاؤ تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنے پاس سے رحمت بخشی تو مجھے اس سے کون بچائے گا اگر میں اس کی نافرمانی کروں تو تم مجھے سوا نقصان کے کچھ نہ بڑھاؤ گے۔
ترجمہ: کنزالعرفان
فرمایا: اے میری قوم! بھلا بتاؤ کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنے پاس سے رحمت عطا فرمائی ہو تو اگر میں اس کی نافرمانی کروں تو مجھے اس سے کون بچائے گا ؟ تم نقصان پہنچانے کے سوا میراکچھ اور نہیں بڑھاؤ گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ یٰقَوْمِ:فرمایا: اے میری قوم!}حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو جواب دیتے ہوئے فرمایا’’ اےمیری قوم! مجھے بتاؤ کہ اگر میں
اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے روشن دلیل پر اور
منصبِ نبوت پر فائز ہوں ، اس کے باوجودمیں بالفرض تمہاری پیروی کروں اور اللہعَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کروں تو اللہعَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے مجھے کوئی نہیں بچا
سکتا اوراس طرح میں نقصان اٹھانے والا اور
جو منصب اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کیا میں ا سے ضائع کرنے والا
ہو جاؤں گا، کیا تم نے کبھی دیکھا ہے کہ کسی نبی عَلَیْہِ السَّلَام نے کفر کیا ہو۔ (صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۶۳، ۳ / ۹۲۱)تمہاری بات ماننا خسارے میں پڑنے کے سوا کچھ نہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت حسن ا ور حضرت عکرمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور دیگر مفسرین فرماتے ہیں کہ سورۂ ہود مکہ
مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے ایک روایت یہ بھی
مروی ہے کہ آیت ’’ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ‘‘ کے سوا باقی تمام سورت مکیہ ہے ۔ مقاتل نے کہا
کہ آیت ’’ فَلَعَلَّكَ تَارِكٌ ‘‘ اور ’’ اُولٰٓىٕكَ یُؤْمِنُوْنَ
بِهٖ‘‘ اور ’’اِنَّ الْحَسَنٰتِ
یُذْهِبْنَ السَّیِّاٰتِ‘‘ کے علاوہ پوری سورت مکی ہے۔ (خازن،
تفسیرسورۃ ہود، ۲ / ۳۳۸)
ا س سورت کی آیت نمبر 50تا 60 میں اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم عاد کا واقعہ بیان کیا گیا ہے ، اس
واقعے کی مناسبت سے اس سور ت کا نام ’’سورۂ ہود‘‘ رکھا گیا۔
سورۂ ہود کے بارے میں اَحادیث:
(1) …حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ،حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: یارسولَاللہ ! صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر بڑھاپے کے آثار
نمودار ہوگئے۔ ارشاد فرمایا : ’’مجھے سورۂ ہود، سورۂ و اقعہ، سورۂ مرسلات، سورۂ عَمَّ یَتَسَآءَلُوْنَ، اور سورۂ اِذَا الشَّمْسُ
كُوِّرَتْ، نے بوڑھا کردیا۔(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الواقعۃ، ۵ / ۱۹۳، الحدیث: ۳۳۰۸) غالباً یہ اس وجہ سے
فرمایا کہ ان سورتوں میں قیامت ، مرنے کے بعد اٹھائے جانے ، حساب اور جنت و دوزخ
کاذکر ہے۔( خازن، تفسیرسورۃ ہود، ۲ / ۳۳۹)
(2) …حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا ’’جسے یہ
بات پسند ہو کہ وہ قیامت کے دن کو اس طرح دیکھے گویا کہ وہ نگاہوں کے سامنے ہے تو
اسے چاہئے کہ وہ سورۂ اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ، سورۂ اِذَا السَّمَآءُ انْفَطَرَتْ اور سورۂ اِذَا السَّمَآءُ انْشَقَّتْ پڑھ لے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : میرا گمان ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سورۂ ہود پڑھنے کا بھی فرمایا۔(
مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہما، ۲ / ۲۵۷، الحدیث: ۴۸۰۶)
(3) …حضرت کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، رسولُ اللہ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جمعہ کے دن سورۂ ہود پڑھا کرو۔(شعب الایمان، سورۃ ہود، ۲ / ۴۷۲، الحدیث: ۲۴۳۸)
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں بھی سورۂ یونس کی طرح
توحید، رسالت، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور قیامت کے دن اَعمال کی جزاء
ملنے کو دلائل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔ اس کے علاوہ اس سورت میں یہ مضامین بیان
کئے گئے ہیں۔
(1) …قرآنِ پاک کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے کو دلیل کے ساتھ ثابت کیا گیا ۔
(2) …آسمان و زمین اور ان میں موجود مَنافع پیدا کرنے کی حکمت بیان کی
گئی کہ ا س سے مقصود نیک اور گناہگار انسان میں اِمتیاز کرنا ہے۔
(3) … مصیبت اور آسانی میں مومن اور کافر کی فِطرت کا مُوازنہ کیا گیا ہے
کہ مومن مصیبت آنے پر صبر کرتا ہے اور آسانی ملنے پر شکر کرتا ہے جبکہ کافر نعمت
ملنے پر تکبر و غرور کرتا ہے جبکہ مصیبت کی حالت میں بڑا مایوس اور ناشکرا ہوجاتا
ہے۔
(4) …ہر انسان کی فطرت مختلف ہے حتّٰی کہ دین قبول کرنے میں بھی ہر ایک کی
فطرت جدا ہے۔
(5) …کفار کی طرف سے پہنچے والی اَذِیَّتوں پر اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کی تسلی
کے لئے سابقہانبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات بیان فرمائے اوران واقعات میں تمام مسلمانوں کے لئے بھی عبرت اور
نصیحت ہے۔
چنانچہ اس سورت میں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ، حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم عادکا واقعہ، حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم ثمود کا واقعہ، حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے مہمان فرشتوں کا واقعہ، حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ، حضرت شعیب عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ
اور حضرت موسیٰ کا فرعون کے ساتھ واقعہ بیان کیا گیا ہے۔
(6) …انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوموں کے واقعات بیان کرنے سے حاصل ہونے والی عبرت و نصیحت کا بیان ہے۔
(7) …دین میں اِستقامت کا حکم دیاگیا اور یہ بتایاگیا کی سرکشی بربادی کا
راستہ ہے اور کفر و شرک کی طرف مَیلان جہنم کے عذاب کا سبب ہے۔
(8) …نماز کو ا س کے اَوقات میں قائم کرنے اور نیک اَعمال پر صبر کرنے کا
حکم دیاگیا ۔
(9) …دین کی دعوت سے اِعراض کرنے
والوں کو عذاب کی وَعید سنائی گئی اور متقی لوگوں کے اچھے انجام کو بیان کیا گیا
جس سے واضح ہوتا ہے کہ ترغیب اور ترہیب اِنفرادی اور اِجتماعی اصلاح میں بہت فائدہ
مند ہے۔
مناسبت
سورۂ یونس کے ساتھ
مناسبت:
سورۂ ہود کی اپنے سے
ماقبل سورت ’’یونس‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ یہ معنی، موضوع، ابتداء اور اختتام
میں سورۂ یونس کے موافق ہے اور سورۂ یونس میں جن اِعتقادی اُمور اور انبیاءِ
کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کے واقعات کو اِجمالی
طور پر بیان کیاگیا ہے، سورہ ٔ ہود میں انہیں تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔