banner image

Home ur Surah Hud ayat 66 Translation Tafsir

فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا نَجَّیْنَا صٰلِحًا وَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَ مِنْ خِزْیِ یَوْمِىٕذٍؕ-اِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْقَوِیُّ الْعَزِیْزُ(66)وَ اَخَذَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دِیَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ(67)كَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْهَاؕ-اَلَاۤ اِنَّ ثَمُوْدَاۡ كَفَرُوْا رَبَّهُمْؕ-اَلَا بُعْدًا لِّثَمُوْدَ(68)

ترجمہ: کنزالایمان پھر جب ہمارا حکم آیا ہم نے صا لح اور اس کے ساتھ کے مسلمانوں کو اپنی رحمت فرماکر بچالیا اور اس دن کی رسوائی سے بیشک تمہارا رب قوی عزت والا ہے۔ اور ظالموں کو چنگھاڑ نے آ لیا تو صبح اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے۔ گویا کبھی یہاں بسے ہی نہ تھے سن لوبیشک ثمود اپنے رب سے منکر ہوئے ارے لعنت ہو ثمود پر۔ ترجمہ: کنزالعرفان پھر جب ہمارا حکم آیا توہم نے صا لح اور اس کے ساتھ والے مسلمانوں کو اپنی رحمت کے ذریعے بچا لیا اور اس دن کی رسوائی سے بچالیا ۔ بیشک تمہارا رب بڑی قوت والا، غلبے والا ہے۔ اور ظالموں کو چنگھاڑ نے پکڑ لیا تو وہ صبح کے وقت اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے ۔ گویا وہ کبھی یہاں رہتے ہی نہ تھے۔ سن لو! بیشک ثمود نے اپنے رب کا انکار کیا۔ خبردار! لعنت ہو ثمود پر۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا:پھر جب ہمارا حکم آیا ۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب قومِ ثمود پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کاحکم آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحمت سے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان پر ایمان لانے والوں کو اس عذاب اور اس دن کی رسوائی سے بچا لیا۔ (تفسیر طبری، ہود، تحت الآیۃ: ۶۶، ۷ / ۶۴)

{وَ اَخَذَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ:اور ظالموں کو چنگھاڑنے پکڑ لیا۔} اس آیت میں قومِ ثمود پر آنے والے عذاب کی کیفیت کا بیان ہے، سورۂ اَعراف میں اِن پر آنے والے عذاب کی کیفیت اس طرح بیان ہوئی کہ

’’فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ‘‘  (اعراف:۷۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو انہیں زلزلے نے پکڑ لیا تو وہ صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔

             اور یہاں اس طرح بیان ہوئی کہ ’’اور ظالموں کو چنگھاڑ نے پکڑ لیا تو وہ صبح کے وقت اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے ۔‘‘ان دونوں کیفیتوں میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ پہلے ہولناک چیخ کی آواز آئی اور اس کے بعد زلزلہ پیدا ہوا ،اس لئے قومِ ثمود کی ہلاکت کو چیخ اور زلزلہ دونوں میں سے کسی کی طرف بھی منسوب کیا جا سکتا ہے۔

{ كَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْهَا:گویا وہ کبھی یہاں رہتے ہی نہ تھے۔} یعنی عذاب نازل ہونے کے بعد ان کا حال یہ ہوا کہ گویا وہ کبھی اپنے شہروں میں بسے ہی نہ تھے اور وہ زندہ تھے ہی نہیں ، اے لوگو! سن لو، قومِ ثمود نے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور ا س کی نشانیوں کا انکار کیا (جس کے نتیجے میں ان کا یہ انجام ہوا تو تمہیں چاہئے کہ ان کے انجام سے عبرت حاصل کرو اور ان جیسے افعال کرنے سے بچو تاکہ تم ان کی طرح کے عذاب میں مبتلا ہونے سے بچ جاؤ)۔