Home ≫ ur ≫ Surah Ibrahim ≫ ayat 17 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ اسْتَفْتَحُوْا وَ خَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ(15)مِّنْ وَّرَآىٕهٖ جَهَنَّمُ وَ یُسْقٰى مِنْ مَّآءٍ صَدِیْدٍ(16)یَّتَجَرَّعُهٗ وَ لَا یَكَادُ یُسِیْغُهٗ وَ یَاْتِیْهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَّ مَا هُوَ بِمَیِّتٍؕ-وَ مِنْ وَّرَآىٕهٖ عَذَابٌ غَلِیْظٌ(17)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اسْتَفْتَحُوْا:اور انہوں نے فیصلہ طلب کیا۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ جب انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنی قوموں کے ایمان قبول کر لینے کی امید نہ رہی تو انہوں نے اللّٰہ تعالیٰ سے اپنی قوموں کے خلاف مدد طلب کی اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے ان پر عذاب نازل کر دینے کی دعا کی ۔ دوسرا معنی یہ ہے کافروں نے یہ گمان رکھتے ہوئے اپنے اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے درمیان اللّٰہ تعالیٰ سے فیصلہ طلب کیا کہ وہ حق پر ہیں اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حق پر نہیں ۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۷۸، مدارک، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۵۶۶، ملتقطاً)
{وَخَابَ کُلُّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ:اور ہر سرکش ہٹ دھرم نا کام ہوگیا۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مدد فرمائی گئی اور انہیں فتح دی گئی اور حق کے مخالف سرکش کا فر نامراد ہوئے اور ان کی خلاصی کی کوئی صورت نہ رہی۔ (ابوسعود، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۱۸۴)
{یَتَجَرَّعُهٗ:بڑی مشکل سے اس کے تھوڑے تھوڑے گھونٹ لے گا۔} یعنی جب حق کے مخالف سرکش کافر کو پیپ کا پانی پلایا جائے گا تو وہ ا س کی کڑواہٹ کی وجہ سے بڑی مشکل سے تھوڑے تھوڑے گھونٹ لے گا اور ا س کی قباحت و کراہت کی بنا پر ایسا لگے گا نہیں کہ وہ اسے گلے سے اتار لے اور مختلف عذابات کی صورت میں ہر طرف سے موت کے اسباب اس کے پاس آئیں گے لیکن وہ مرے گا نہیں کہ مر کر ہی راحت پا لے اور اسے ہر عذاب کے بعد اس سے زیادہ شدید اور سخت عذاب ہوگا۔ (جلالین مع صاوی، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۱۷، ۳ / ۱۰۱۸، مدارک، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۵۶۶، ملتقطاً)
جہنمیوں کے مشروب کی کیفیت:
اس آیت میں جہنمیوں کے جس مشروب کا ذکر ہوا اس کی کیفیت ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جہنمی کو پیپ کا پانی پلایا جائے گا، جب وہ پانی منہ کے قریب آئے گا تو وہ اس کو بہت ناگوار معلوم ہوگا اور جب اور قریب ہو گاتو اس سے چہرہ بُھن جائے گا اور سر تک کی کھال جل کر گر پڑ ے گی، جب وہ پانی پئے گا تو اس کی آنتیں کٹ کر نکل جائیں گی۔ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ سُقُوْا مَآءً حَمِیْمًا فَقَطَّعَ اَمْعَآءَهُمْ‘‘(سورۃ محمد:۱۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور انہیں کھولتا پانی پلایا جائے گا تووہ ان کی آنتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردے گا؟
اور ارشاد فرمایا:
’’وَ اِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَآءٍ كَالْمُهْلِ یَشْوِی الْوُجُوْهَؕ-بِئْسَ الشَّرَابُؕ-وَ سَآءَتْ مُرْتَفَقًا‘‘ (الکہف۲۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور اگروہ پانی کے لیے فریاد کریں تو ان کی فریاد اس پانی سے پوری کی جائے گی جو پگھلائے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا جو ان کے منہ کوبھون دے گا۔ کیا ہی برا پینا ہے ۔ اور دوزخ کیا ہی بری ٹھہرنے کی جگہ ہے۔ (ترمذی، کتاب صفۃ جہنّم، باب ما جاء فی صفۃ شراب اہل النار، ۴ / ۲۶۲، الحدیث: ۲۵۹۲)
اہلِ جنت اور اہلِ جہنم کو کبھی موت نہ آئے گی:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جہنم میں شدید ترین عذابات میں مبتلا ہونے کے باوجود جہنمیوں کو موت نہیں آئے گی، موت سے متعلق حضرت عبد اللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے تو موت کو لایا جائے گا یہاں تک کہ اسے جنت اور جہنم کے درمیان رکھ دیا جائے گا، پھر اسے ذبح کر دیا جائے گا، اس کے بعد ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا کہ اے اہلِ جنت! تمہیں موت نہیں اور اے اہلِ جہنم! تمہیں موت نہیں۔ چنانچہ اہلِ جنت کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہے گا اور اہلِ جہنم کے غم کا کوئی اندازہ نہ کر سکے گا۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنّۃ والنار، ۴ / ۲۶۰، الحدیث: ۶۵۴۸۔) ’’ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَمِنْ غَضَبِ الْجَبَّارِ‘‘ یعنی ہم جہنم کے عذاب اور غضبِ جبار سے اللّٰہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں ۔