banner image

Home ur Surah Ibrahim ayat 25 Translation Tafsir

اِبرٰهِيْم

Ibrahim

HR Background

اَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِ(24)تُؤْتِیْۤ اُكُلَهَا كُلَّ حِیْنٍۭ بِاِذْنِ رَبِّهَاؕ-وَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(25)

ترجمہ: کنزالایمان کیا تم نے نہ دیکھا اللہ نے کیسی مثال بیان فرمائی پاکیزہ بات کی جیسے پاکیزہ درخت جس کی جڑ قائم اور شاخیں آسمان میں ۔ ہر وقت اپنا پھل دیتا ہے اپنے رب کے حکم سے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں وہ سمجھیں ۔ ترجمہ: کنزالعرفان کیا تم نے نہ دیکھا کہ اللہ نے کلمہ پاک کی کیسی مثال بیان فرمائی ہے جیسے ایک پاکیزہ درخت ہو جس کی جڑقائم ہو اور اس کی شاخیں آسمان میں ہوں ۔ ہر وقت اپنے رب کے حکم سے پھل دیتا ہے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ سمجھیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَمْ تَرَ:کیا تم نے نہ دیکھا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات میں  اللّٰہ تعالیٰ نے مومنین اور کفار کی دو مثالیں  بیان فرمائی ہیں  ،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کے ابتدائی حصے میں  مذکور مثال کا خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح کھجور کے درخت کی جڑیں  زمین کی گہرائی میں  موجود ہوتی ہیں  اور اس کی شاخیں  آسمان میں  پھیلی ہوئی ہوتی ہیں  اور وہ اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے ہر وقت پھل دیتا ہے ایسے ہی کلمۂ ایمان ہے کہ اس کی جڑ مومن کے دل کی زمین میں  ثابت اور مضبوط ہوتی ہے اور اس کی شاخیں  یعنی عمل آسمان میں  پہنچتے ہیں  اور اس کے ثَمرات یعنی برکت و ثواب ہر وقت حاصل ہوتے ہیں ۔( خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۸۱-۸۲، ملخصاً)

پاکیزہ بات اور پاکیزہ درخت:

            حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں  کہ (اس آیت میں ) پاکیزہ بات سے ’’لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کہنا مراد ہے اور پاکیزہ درخت سے مراد کھجور کا درخت ہے۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۸۱)  پاکیزہ درخت سے متعلق اور بھی اقوال ہیں ۔

مومن مرد کی مثال درخت:

             حضرت عبداللّٰہ بن عمر  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں ’’ہم سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  حاضر تھے  کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے ارشاد فرمایا ’’مجھے اس درخت کے بارے بتاؤ جو مردِ مومن کی مثل ہے، اس کے پتے نہیں  گرتے اور وہ ہروقت پھل دیتا ہے؟حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ میرے دل میں  آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے لیکن جب میں  نے یہ دیکھا کہ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا جیسے صحابہ خاموش ہیں  تو مجھے کلام کرنا مناسب نہ لگا، جب صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے کوئی جواب نہ دیا توحضور ِاقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’وہ کھجور کا درخت ہے۔ مجلس برخاست ہونے کے بعد میں  نے اپنے والد ماجد حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے عرض کی ’’ جب حضور پُر نور  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دریافت فرمایا تھا تو میرے دل میں  آیا تھا کہ یہ کھجور کا درخت ہے لیکن جب میں  نے دیکھا کہ بڑے بڑے صحابۂ کرام  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم تشریف فرما ہیں  اور وہ کوئی جواب نہیں  دے رہے تو میں بھی خاموش رہا، حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ اگر تم بتادیتے تو مجھے بہت خوشی ہوتی۔ (بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ ابراہیم، باب کشجرۃ طیّبۃ اصلہا ثابت۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۵۳، الحدیث: ۴۶۹۸)

{وَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ:اور اللّٰہ لوگوں  کے لیے مثالیں  بیان فرماتا ہے۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ لوگوں  کے لئے مثالیں  اس لئے بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں  اور ایمان لائیں  کیونکہ مثالوں  سے معنی اچھی طرح دل میں  اتر جاتے ہیں۔ (جلالین، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۲۰۸، خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳ / ۸۲، ملتقطاً)