banner image

Home ur Surah Ibrahim ayat 34 Translation Tafsir

اِبرٰهِيْم

Ibrahim

HR Background

وَ اٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُؕ-وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَاؕ-اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ(34)

ترجمہ: کنزالایمان اور تمہیں بہت کچھ منہ مانگا دیااور اگر اللہ کی نعمتیں گنو تو شمار نہ کرسکو گے بیشک آدمی بڑا ظالم ناشکرا ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور اس نے تمہیں وہ بھی بہت کچھ دیدیا جو تم نے اس سے مانگا اور اگر تم اللہ کی نعمتیں گنو توانہیں شمار نہ کر سکو گے، بیشک انسان بڑا ظالم ناشکرا ہے ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ:اور اس نے تمہیں  وہ بھی بہت کچھ دیدیا جو تم نے اس سے مانگا ۔} اس سے پہلی آیات میں  اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی ان عظیم ترین نعمتوں  کا ذکر فرمایا جو اس نے اپنے بندوں  پر فرمائیں  اور اس آیت میں  یہ بیان فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے بندوں  کو صرف یہی نعمتیں  عطا نہیں  کیں  بلکہ ان کی بے شمار منہ مانگی مرادیں  بھی پوری فرمائی ہیں۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۳۴، ۳ / ۸۵) مفسرین نے اس آیت کے مختلف معنی بیان فرمائے ہیں ۔

(1)…تم نے جو کچھ اللّٰہ تعالیٰ سے مانگا اس میں  سے کچھ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی مَشِیَّت اور حکمت کے مطابق عطا فرما دیا۔ (ابوسعود، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۳۴، ۳ / ۱۹۴)

(2)…اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو ہر وہ چیز عطا کر دی جس کی اسے حاجت اور ضرورت تھی ، چاہے اس  نے سوال کیا ہو یا نہ کیا ہو۔

(3)… تمہیں  ہر وہ چیز عطا کر دی جس کی تمہیں  ضرورت تھی اور تم نے اس کیلئے زبانِ حال سے سوا ل کیا تھا۔ (بیضاوی، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۳۴، ۳ / ۳۵۰)

{وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا:اور اگر تم اللّٰہ کی نعمتیں  گنو تو انہیں شمار نہ کرسکو گے۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ کی اپنے بندوں  پر نعمتیں  اتنی زیادہ ہیں  کہ اگر کوئی انہیں  شمار کرنا چاہے تو ان کی کثرت کی وجہ سے شمار ہی نہیں  کر سکتا۔یہاں  نعمت ِ الٰہی کے حوالے سے ہم اِحیاء العلوم کی روشنی میں  صرف ایک مثال بیان کرتے ہیں  اور اسی سے سمجھ لیں  کہ ہر چیز میں  اگر اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں  کو شمار کرنے لگیں  تو عین الیقین کے طور پر یہ بات سامنے آجائے گی کہ ہم اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں  کو گننا چاہیں  تو گن نہیں  سکتے۔ چنانچہ امام غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’کھائی جانے والی چیزوں  کی تخلیق میں  اللّٰہ تعالیٰ نے اتنے عجائبات رکھے ہیں  کہ انہیں  شمار ہی نہیں  کیا جا سکتا ۔ صرف گندم ہی کو لے لیجئے کہ جب تمہارے پاس کچھ گندم ہو اور تم اسے کھا تے رہو تو وہ گندم ختم ہو جائے گی اور تم بھوکے رہ جاؤ گے لہٰذا تمہیں ایسا کام کرنے کی حاجت ہے کہ جس سے گندم کے دانے اتنے زیادہ ہو جائیں  کہ تمہاری ضرورت کو کافی ہوں  اور وہ کام گندم کو کاشت کرنا ہے،ا س کی صورت یہ ہو گی کہ تم گندم کے دانے کو ایسی زمین میں  ڈالو جس میں  پانی ہو اور وہ پانی زمین سے مل کر گارا بن چکا ہو ،پھر صرف پانی اور مٹی ہی کافی نہیں  کیونکہ اگر تم اس گندم کو ایسی زمین میں  چھوڑ دو گے جو سخت اور باہم مُتَّصل ہو تو ہو انہ پہنچنے کی وجہ سے گندم اُگے گی ہی نہیں ، لہٰذا ضروری ہے کہ گندم کا دانہ ایسی زمین میں  چھوڑا جائے جو نرم اور پلپلی ہو تاکہ ہوا اس میں  داخل ہو سکے ۔ پھر ہو اخود بخود حرکت نہیں  کرتی لہٰذا ایسی آندھی کی ضرورت ہے جو ہوا کو حرکت دے اور اسے زور زور سے زمین پر مارے تاکہ وہ اس کے اندر چلی جائے ۔ پھر اگر بہت زیادہ سردی ہو تو یہ سب کچھ فائدہ نہیں  دیتا لہٰذا بہار اور گرمی کی ضرورت ہوئی۔ پھر ا س پانی کی طرف دیکھو جس کی گندم کاشت کرنے میں  حاجت ہے،اسے اللّٰہ تعالیٰ نے کس طرح پیدا فرمایا پھر ا س سے چشمے اور نہریں  جاری فرمائیں ،پھر بعض اوقات زمین بلندی پر ہوتی ہے اور پانی اس تک پہنچ نہیں  سکتا تو دیکھو کس طرح اللّٰہ تعالیٰ نے بادل بنائے اور ان پر کیسے ہو اکو مُسَلط کیا تاکہ وہ اِذنِ خداوندی سے ان کو زمین کے مختلف کناروں  تک لے جائے حالانکہ بادل پانی سے بھرے ہوئے بھاری ہوتے ہیں ۔ پھر کس طرح اللّٰہ تعالیٰ ضرورت کے مطابق بہار اور خزاں  کے موسم میں  بارش برساتا ہے اور دیکھو کہ اللّٰہ تعالیٰ نے کس طرح پہاڑ بنائے جو پانی کی حفاظت کرتے ہیں  اور ان سے بَتدریج پانی نکلتا ہے اگر یکدم پانی نکلے تو شہر غرق ہو جائیں  اور جانور وغیرہ ہلاک ہو جائیں  اور دیکھو کہ کس طرح اللّٰہ تعالیٰ نے سورج کو پیدا کیا اور اسے مُسخر کیا حالانکہ وہ زمین سے بہت دور ہے۔ایک وقت میں  زمین کو گرم کرتا ہے اور ایک وقت میں  نہیں  تاکہ ٹھنڈک کی ضرورت ہو تو وہ ٹھنڈک دے اور گرمی کی حاجت ہو تو گرمی دے اور چاند کو پیدا کیا اور اس کی خاصیت مرطوب بنانا ہے جس طرح سورج کی خاصیت حرارت پہنچانا ہے تووہ چاند پھلوں  کوپکاتا اور رنگین کرتا ہے اور یہ سب کچھ پیدا کرنے والے حکیم کی طرف سے مقرر کردہ ہے اور آسمان کے تمام ستاروں  کو کسی نہ کسی فائدے کے لئے مسخر کیا گیا ہے جس طرح سور ج کو حرارت دینے اور چاند کو رطوبت دینے کے لئے مسخر کیا گیا ہے ۔خلاصہ یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک میں  بے شمار حکمتیں  ہیں  جن کا شمار کرنا انسانی طاقت سے باہر ہے۔(احیاء علوم الدین، کتاب الصبر والشکر، بیان وجہ الانموذج فی کثرۃ نعم اللّٰہ تعالٰی۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۴۲-۱۴۳، ملخصاً)