banner image

Home ur Surah Luqman ayat 6 Translation Tafsir

لُقْمٰن

Luqman

HR Background

وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَهْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ ﳓ وَّ یَتَّخِذَهَا هُزُوًاؕ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ(6)

ترجمہ: کنزالایمان اور کچھ لوگ کھیل کی بات خریدتے ہیں کہ الله کی راہ سے بہکادیں بے سمجھے اور اُسے ہنسی بنالیں اُن کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور کچھ لوگ کھیل کی باتیں خریدتے ہیں تاکہ بغیر سمجھے الله کی راہ سے بہکادیں اورانہیں ہنسی مذاق بنالیں ۔ان کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَهْوَ الْحَدِیْثِ: اور کچھ لوگ کھیل کی باتیں  خریدتے ہیں ۔} شانِ نزول: یہ آیت نضر بن حارث بن کلدہ کے بارے میں  نازل ہوئی جو کہ تجارت کے سلسلے میں  دوسرے ملکوں  کا سفر کیا کرتاتھا۔ اس نے عَجمی لوگوں  کی قصے کہانیوں  پر مشتمل کتابیں  خریدی ہوئی تھیں  اوروہ کہانیاں  قریش کو سناکر کہا کرتا تھا کہ محمد ( مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)تمہیں  عاد اورثمود کے واقعات سناتے ہیں  اور میں  تمہیں  رستم،اسفند یار اورایران کے شہنشاؤں  کی کہانیاں  سناتا ہوں ۔ کچھ لوگ اُن کہانیوں  میں  مشغول ہوگئے اور قرآنِ پاک سننے سے رہ گئے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیا: ’’کچھ لوگ کھیل کی باتیں  خریدتے ہیں  تاکہ جہالت کی بنا پر لوگوں  کو اسلام میں  داخل ہونے اور قرآنِ کریم سننے سے روکیں  اور اللہ تعالیٰ کی آیات کا مذاق اڑائیں ،ایسے لوگوں  کے لیے ذِلّت کا عذاب ہے۔(خازن، لقمان، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۴۶۸، مدارک، لقمان، تحت الآیۃ: ۶، ص۹۱۵-۹۱۶، ملتقطاً)

’’لَهْوَ الْحَدِیْثِ‘‘ کی وضاحت:

لَہْو یعنی کھیل ہر اس باطل کو کہتے ہیں  جو آدمی کو نیکی سے اور کام کی باتوں  سے غفلت میں  ڈالے۔ اس میں بے مقصدو بے اصل اور جھوٹے قصے،کہانیاں  اورافسانے ،جادو،ناجائز لطیفے اور گانا بجانا وغیرہ سب داخل ہے۔اِس قسم کے آلات ِ لَہْو و لَعِب کوبیچنا بھی منع ہے اور خریدنا بھی ناجائز ، کیونکہ یہ آیت ان خریداروں کی برائی بیان کرنے کے بارے میں  ہی اتری ہے۔ اسی طرح ناجائز ناول، گندے رسالے ، سینما کے ٹکٹ، تماشے وغیرہ کے اسباب سب کی خرید و فروخت منع ہے کہ یہ تمام’’لَهْوَ الْحَدِیْثِ‘‘یا ان کے ذرائع ہیں ۔

آیت ’’وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَهْوَ الْحَدِیْثِ‘‘سے معلوم ہونے والے مسائل:

اس آیت سے تین مسئلے معلوم ہوئے :

(1)…قرآن مجید سننے سے اِعراض کرنا اور دین ِاسلام سے روکنے کی خاطر بے فائدہ واقعات،جھوٹی اور بے اصل کہانیاں  اور لطیفے وغیرہ سنا کر قرآنِ مجید سننے سے ہٹادینا عظیم ترین جرم ہے اور اس جرم کا مُرتکِب دردناک عذاب کا حق دار ہے۔

(2)… لوگوں  کو گمراہ کرنے والے کا عذاب گمراہ ہونے والوں  کے مقابلے میں  بہت زیادہ ہے کیونکہ تمام گمراہوں  کا وَبال بھی اسی پر پڑے گا۔

(3)…اس آیت سے علماء ِکرام نے گانے بجانے کی حرمت پر اِستدلال کیا ہے ۔

گانے بجانے کی مذمت:

اس آیت میں’’لَهْوَ الْحَدِیْثِ‘‘سے متعلق ممتاز مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد گانا بجانا ہے ،اس مناسبت سے یہاں  گانے بجانے کی مذمت پر2 اَحادیث اورحضرت عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا طرزِ عمل ملاحظہ ہو،

(1)…حضرت عمران بن حصین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اس اُمّت میں  زمین میں  دھنسنا،مَسخ ہونا اور آسمان سے پتھر برسنا ہو گامسلمانوں  میں  سے ایک شخص نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ کب ہو گا؟ارشاد فرمایا’’جب گانے والیوں  اور موسیقی کے آلات کا ظہور ہو گا اور شرابوں  کو (سرِ عام) پیا جائے گا۔( ترمذی، کتاب الفتن، باب ما جاء فی علامۃ حلول المسخ والخسف، ۴ / ۹۰، الحدیث: ۲۲۱۹)

(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جوشخص گانا سننے کے لئے کسی باندی کے پاس بیٹھا،اس کے کانوں  میں  پگھلا ہوا سیسہ اُنڈیلا جائے گا۔( ابن عساکر، حرف المیم، ۶۰۶۴-محمد بن ابراہیم ابوبکر الصوری، ۵۱ / ۲۶۳)

حضرت عمربن عبد العزیز رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے بچوں  کے استاد کی طرف خط لکھا اور فرمایا:یہ خط اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندے عمرامیرالمومنین کی جانب سے سہل کی طرف ہے۔ اَمَّابَعْد! میں  نے اپنی اولاد کی تربیت کے لیے اپنی معلومات کی بنا پر تمہیں  مُنتخب کیاہے، میں  نے اپنے بچوں  کوتمہارے سپردکردیاہے کسی اورغلام یا کسی خاص مُعتمد کے سپردنہیں  کیا۔لہٰذا تم ان کے ساتھ (مناسب و بقدرِ ضرورت) سختی کے ساتھ پیش آؤکیونکہ یہ ان کے آگے بڑھنے کوزیادہ ممکن بنائے گی ،عام لوگوں  کی صحبت اختیارنہ کرنے دوکیونکہ یہ غفلت پیداکرتی ہے،زیادہ ہنسنے سے روکوکیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مار ڈالتا ہے۔ تمہاری تعلیم سے سب سے پہلے جس چیزکامیرے بچے اِعتقادرکھیں  وہ لَہْو و لَعِب  سے نفرت ہونی چاہیے جس کاآغاز شیطان کی جانب سے ہوتاہے اورا س کاانجام رحمٰن کی ناراضگی ہے۔ اصحاب ِعلم میں  سے ثِقَہ لوگوں  سے مجھے یہ خبرپہنچی ہے کہ لَہْو و لَعِب کے آلات کاسننااوران کاشیْفتہ ہونایہ دل میں  اسی طرح نفاق پیداکرتاہے جس طرح پانی گھاس اگاتا ہے۔ میری زندگی کی قسم ،ان مقامات پرحاضرہونے کوترک کرکے اپنے آپ کو بچانا دانشمندوں  کے لیے زیادہ آسان ہے بنسبت اس کے کہ وہ اپنے دل میں  نفاق کوقائم رکھیں  ۔جب وہ ان گانوں  سے جداہوتاہے تواسے یقین نہیں  ہوتا کہ اس کے کانوں  نے جوسناہے وہ اس سے فائد ہ بھی حاصل کرسکتاہے۔ ان بچوں  میں  سے ہرایک کوقرآنِ حکیم کے ایک حصہ سے سبق شروع کراؤ۔وہ اس کی قراء ت میں  خوب مضبوط ہو۔( درمنثور، لقمان، تحت الآیۃ: ۶، ۶ / ۵۰۶)

گانے کی مختلف صورتیں  اور ان کے احکام:

فتاویٰ رضویہ کی 24ویں  جلد میں  اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے گاناسننے اور سنانے سے متعلق انتہائی تحقیقی کلام فرمایا ہے، یہاں اس کا خلاصہ درج ذیل ہے

مَزامیر یعنی لَہْو و لَعِب کے آلات لہو ولعب کے طور پر سننا اور سنانا بلاشبہ حرام ہیں ، ان کی حرمت اولیاء اورعلماء دونوں  کے کلماتِ عالیہ میں  واضح ہے ۔ ان کے سننے سنانے کے گناہ ہونے میں  شک نہیں  کہ اصرارکے بعد گناہِ کبیرہ ہے۔

مزامیر کے بغیر محض سننے کی چند صورتیں  یہ ہیں :

(1)… گانے بجانے کا پیشہ کرنے والی عورتوں ، یا بدکارعورتوں  اور محل ِفتنہ اَ مْرَدُوں  کا گانا۔

(2)… جو چیز گائی جائے وہ مَعْصِیَت پرمشتمل ہو ،مثلاًفحش یاجھوٹ یا کسی مسلمان یا ذمی کافر کی مذمت یا شراب اورزنا وغیرہ فاسقانہ کاموں  کی ترغیب یا کسی زندہ عورت خواہ اَمْرَدکے حسن کی یقینی طور پر تعریف یا کسی مُعَیَّن عورت کا اگرچہ مردہ ہو ایسا ذکر جس سے اس کے قریبی رشتہ داروں  کو حیا اورعار آئے ۔

(3)… لَہْو و لَعِب کے طور پر سنا جائے اگرچہ اس میں  کسی مذموم چیز کا ذکر نہ ہو ۔

یہ تینوں  صورتیں  ممنوع ہیں  اورایسا ہی گانا’’لَهْوَ الْحَدِیْثِ‘‘ہے اس کے حرام ہونے کی کوئی اور دلیل نہ بھی ہو تو صرف یہ حدیث ’’کُلُّ لَعِبِ ابْنِ اٰدَمَ حَرَامٌ اِلَّا ثَلٰـثَۃٌ ‘‘ یعنی ابن ِآدم کا ہر کھیل حرام ہے سوائے تین کھیلوں  کے۔‘‘ کافی ہے ۔ان تین صورتوں کے علاوہ وہ گانا جس میں  نہ مَزامیر ہوں  ،نہ گانے والے محلِ فتنہ ہوں ،نہ لہو ولعب مقصود ہو اورنہ کوئی ناجائز کلام ہو اس سے بھی ان لوگوں  کو روکا جائے گا جو فاسق و فاجر اور دنیا کی شہوات میں  مست ہوں البتہ نَفسانی خواہشات و برے خیالات سے پاک دلوں  والے وہ لوگ جو اللہ والے ہیں  ان کے حق میں یہ بغیر آلاتِ موسیقی والے سادہ اَشعار کا سننا جائز بلکہ مستحب کہئے تو دور نہیں  کیونکہ گانا کوئی نئی چیز پیدانہیں  کرتا بلکہ دبی بات کو ابھارتا ہے، جب دل میں  بری خواہش اوربیہودہ آلائشیں  ہوں  تو وہ انہیں  کو ترقی دے گا اور جوپاک، مبارک ، ستھر ے دل، شہوات سے خالی اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی محبت سے بھرے ہوئے ہیں  ان کے اس شوقِ محمود اور عشقِ مسعود کو افزائش دے گا ۔ان بندگانِ خداکے حق میں  اسے ایک عظیم دینی کام ٹھہرانا کچھ بے جانہیں ۔ یہ اس چیز کا بیان تھا جسے عرف میں  گانا کہتے ہیں  اور اگر حمد و نعت ،منقبت ،وعظ و نصیحت اور آخرت کے ذکر پر مشتمل اَشعار بوڑھے یا جوان مرد خوش اِلحانی سے پڑھیں  اور نیک نیت سے سنے جائیں  کہ اسے عرف میں  گانا نہیں  بلکہ پڑھنا کہتے ہیں  تو اس کے منع ہونے پر شریعت سے اصلاً دلیل نہیں  ہے۔ حضور پُر نور، سیّدِ عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا حضرت حسان بن ثابت انصاری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے لیے خاص مسجد ِاقدس میں  منبر رکھنا اوران کا اس پر کھڑے ہو کر نعت ِاَقدس سنانا اور حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اورصحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کاسننا خودصحیح بخاری شریف کی حدیث سے واضح ہے اور عرب میں  حُدی کی رسم کا صحابہ وتابعین کے زمانے بلکہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے عہد میں  رائج رہنا مردوں  کے خوش اِلحانی کے جواز پر روشن دلیل ہے، حضرت انجشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو حُدی کرنے پر حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے منع نہ فرمایا بلکہ عورتوں  کا لحاظ کرتے ہوئے یَا اَنْجَشَۃُ رُوَیْدَ لَا تَکْسِرِ الْقَوَارِیْرَ ارشاد ہواکہ ان کی آواز دلکش ودل نواز تھی، عورتیں  نرم ونازک شیشیاں  ہیں  جنہیں  تھوڑی ٹھیس بہت ہوتی ہے۔ غرض مدارِکار فتنہ کے تحقُّق اور توقُّع پر ہے، جہاں  فتنہ ثابت وہاں  حرمت کا حکم ہے اورجہاں  فتنے کی توقُّع اوراندیشہ ہے وہاں سدِّ ذریعہ کے پیش ِنظر ممانعت کا حکم ہے، جہاں  نہ فتنہ ثابت نہ فتنے کی توقع تو وہاں  نہ حرمت کا حکم ہے نہ ممانعت بلکہ اچھی نیت ہو تو مستحب ہو سکتا ہے۔ بِحَمْدِ اللہ تَعَالٰی یہ چند سطروں  میں  تحقیق ِنفیس ہے کہ اِنْ شَاءَ اللہُ الْعَزِیْز حق اس سے مُتجاوِز نہیں ۔(فتاویٰ رضویہ، لہو ولعب، ۲۴ / ۷۸-۸۵، ملخصاً)

نوٹ: یہاں  خلاصے میں  کچھ چیزیں  ترک بھی کردی ہیں ۔

دین ِاسلام سے روکنے اور دور کرنے والوں  کے لئے سامانِ عبرت:

ہمارے معاشرے میں  غیر مسلموں  اور نام نہاد مسلمانوں  کی ایک تعداد ایسی ہے جو لوگوں  کو دین ِاسلام سے دور رکھنے ،مسلمانوں  کو دینِ اسلام سے دور کرنے اوراس کا مخالف بنانے کے لئے مُنَظَّم انداز میں  کوششیں  کرتے ہیں  اور اس مقصد کے حصول کے لئے ان کے پاس ایک بڑ اذریعہ عورت ہے۔ ایسے لوگ اسلامی تعلیمات کو توڑ مروڑ کرپیش کرتے ہیں  ،جبکہ یہ خود وہ ہیں  جو عورت کی جسم فروشی پر اطمینان محسوس کرتے ہیں  اور ماڈل کا نام دے کر اس کی اداؤ ں  کی قیمت لگانے کو روشن خیالی قرار دیتے ہیں  یعنی عورت کی حفاظت کی جائے اور اسے گھر بیٹھے ہر چیز عزت کے ساتھ مُہَیّا کرنے کا کہا جائے جیسے اسلام کا حکم ہے تو روشن خیال کہلانے والوں  کی طبیعت خراب ہوتی ہے اور بکری، گائے کی طرح اس کے جسم یا اس کے علاوہ اس کے ناچ یا اداؤں  کو فروخت کیلئے پیش کیا جائے تو اِن لوگوں  کی نظر میں  یہ عورت کو اس کا صحیح مقام دینا قرار پاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ دین ِاسلام جیسا امن و سلامتی کا داعی مذہب دنیا میں  نہیں  ہے، عورتوں  اور بچوں  کو جتنے حقوق ا س دین میں  دئیے گئے اور ان کے حقوق کی حفاظت کے جو اِقدامات اس دین میں  کئے گئے کسی اور دین میں  اس کی مثال نہیں  ملتی ،اس میں  مقرر کی گئی جرموں  کی سزائیں  انسانوں  کی بقا ،سلامتی اور معاشرے میں  امن و امان کی عَلمبردار ہیں ۔ایسے تمام لوگوں  کے لئے اس آیت میں  بڑی عبرت ہے کہ اگر یہ اپنی ان ذلیل حرکات سے باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: ’’اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ‘‘ کے مطابق ذلت کے عذاب کے حق دار ہیں ۔