banner image

Home ur Surah Maryam ayat 13 Translation Tafsir

مَرْيَم

Maryam

HR Background

وَّ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ زَكٰوةًؕ-وَ كَانَ تَقِیًّا(13)

ترجمہ: کنزالایمان اور اپنی طرف سے مہربانی اور ستھرائی اور کمال ڈر والا تھا۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور اپنی طرف سے نرم دلی اورپاکیزگی دی اور وہ (اللہ سے) بہت زیادہ ڈرنے والا تھا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا:اور اپنی طرف سے نرم دلی دی۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے حضرت یحیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی 3 صفات بیان فرمائی ہیں  ۔

(1)… اللہ تعالیٰ نے انہیں  اپنی طرف سے نرم دلی عطا کی اور ان کے دل میں  رِقَّت و رحمت رکھی تا کہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام لوگوں  پر مہربانی کریں  اور انہیں   اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے اور اخلاص کے ساتھ نیک اعمال کرنے کی دعوت دیں ۔

(2)… اللہ تعالیٰ نے انہیں  پاکیزگی دی ۔حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَافرماتے ہیں  کہ یہاں  پاکیزگی سے طاعت و اخلاص مراد ہے۔ اور حضرت قتادہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ پاکیزگی سے مراد عملِ صالح ہے۔(بغوی، مریم، تحت الآیۃ: ۱۳، ۳ / ۱۵۹)

(3)… وہ  اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ ڈرنے والا تھا۔ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  اللہ تعالیٰ کے خوف سے بہت گریہ و زاری کرتے تھے یہاں  تک کہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے رخسار مبارکہ پر آنسوؤں  سے نشان بن گئے تھے ۔

حضرت یحیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اورتاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نرم دلی اور رحمت:

            اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے حضرت یحیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نرم دلی اور رحمت ان الفاظ ’’ وَ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا‘‘کے ساتھ بیان فرمائی ،اور اپنے حبیب صَلَّی اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی نرم دلی اور امت پر شفقت ورحمت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا

’’ فَبِمَا  رَحْمَةٍ  مِّنَ  اللّٰهِ  لِنْتَ  لَهُمْ‘‘ (اٰل عمران:۱۵۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:تو اے حبیب! اللہ کی کتنی بڑی مہربانی ہے کہ آپ ان کے لئے نرم دل ہیں ۔اور ارشاد فرمایا: ’’لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘(توبہ:۱۲۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک تمہارے پاس تم میں  سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں  پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں  پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں ۔

            اس سے معلوم ہوا کہ  اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بھی کمال درجے کی نرم دلی ، امت کی بھلائی کی حرص اور مسلمانوں  پر شفقت و رحمت عطا کی ہے ۔

نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پاک کرنے والے ہیں :

             اللہ تعالیٰ نے حضرت یحیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں  ارشاد فرمایا کہ ہم نے اپنی طرف سے انہیں  پاکیزگی دی۔ اور اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں  ارشاد فرمایا :

’’لَقَدْ  مَنَّ  اللّٰهُ  عَلَى  الْمُؤْمِنِیْنَ  اِذْ  بَعَثَ  فِیْهِمْ  رَسُوْلًا  مِّنْ  اَنْفُسِهِمْ  یَتْلُوْا  عَلَیْهِمْ  اٰیٰتِهٖ  وَ  یُزَكِّیْهِمْ  وَ  یُعَلِّمُهُمُ  الْكِتٰبَ  وَ  الْحِكْمَةَۚ-وَ  اِنْ  كَانُوْا  مِنْ  قَبْلُ  لَفِیْ  ضَلٰلٍ  مُّبِیْنٍ‘‘(اٰل عمران:۱۶۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک  اللہ نے ایمان والوں  پر بڑا احسان فرمایا جب ان میں  ایک رسول مبعوث فرمایا جو انہی میں  سے ہے۔وہ ان کے سامنے  اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اورانہیں  پاک کرتا ہے اور انہیں  کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ یہ لوگ اس سے پہلے یقیناکھلی گمراہی میں  پڑے ہوئے تھے۔

 نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا خوفِ خدا:

            اس آیت میں  حضرت یحیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں  ارشاد ہو اکہ وہ  اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ ڈرنے والے تھے،اس مناسبت سے یہاں  حبیبِ خدا  صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خوفِ خدا کی تین روایات ملاحظہ ہوں ، چنانچہ حضرت انس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ خدا کی قسم! میں  تم سب میں   اللہ عَزَّوَجَلَّ سے زیادہ ڈرنے والا اور خوف کرنے والا ہوں ۔( بخاری، کتاب النکاح، باب الترغیب فی النکاح، ۳ / ۴۲۱، الحدیث: ۵۰۶۳)

            حضرت براء بن عازب رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں : ہم حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہمراہ ایک جنازے میں  شریک تھے، آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قبر کے کنارے بیٹھے اور اتنا روئے کہ آپ کی چشمانِ اقدس سے نکلنے والے آنسوؤں  سے مٹی نم ہوگئی ۔ پھر ارشاد فرمایا ’’اے بھائیو! اس قبر کے لئے تیاری کرو۔( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب الحزن والبکاء، ۴ / ۴۶۶، الحدیث: ۴۱۹۵)

            حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا فرماتی ہیں : جب آندھی اور بادل والا دن ہوتا تورسولِ اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چہرہ ٔ اقدس کا رنگ مُتَغَیّر ہوجاتا اور آپ کبھی حجرہ سے باہر تشریف لے جاتے اور کبھی واپس آجاتے، پھر جب بارش ہو جاتی تو یہ کَیْفِیّت ختم ہوجاتی۔ میں  نے اس کی وجہ پوچھی تو ارشاد فرمایا ’’(اے عائشہ! رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا) مجھے یہ خوف ہوا کہ کہیں  یہ بادل،  اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عذاب نہ ہو جو میری امت پر بھیجا گیا ہو۔(شعب الایمان، الحادی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۱ / ۵۴۶، الحدیث: ۹۹۴)