banner image

Home ur Surah Maryam ayat 15 Translation Tafsir

مَرْيَم

Maryam

HR Background

وَ سَلٰمٌ عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَ یَوْمَ یَمُوْتُ وَ یَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا(15)

ترجمہ: کنزالایمان اور سلامتی ہے اس پر جس دن پیدا ہوا اور جس دن مرے گا اورجس دن زندہ اٹھایا جائے گا ۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور اس پر سلامتی ہے جس دن وہ پیدا ہوا اور جس دن وہ فوت ہوگا اورجس دن وہ زندہ اٹھایا جائے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ سَلٰمٌ عَلَیْهِ:اور اس پر سلامتی ہے ۔} یعنی جس دن حضرت یحیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پیدا ہوئے اس دن ان کے لئے شیطان سے امان ہے کہ وہ عام بچوں  کی طرح آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کونہ چھوئے گا اور جس دن آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وفات پائیں  گے اس دن ان کے لئے عذابِ قبرسے امان ہے اور جس دن آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو زندہ اٹھایا جائے گا اس دن ان کے لئے قیامت کی سختی سے امان ہے ۔ اس آیت کی تفسیر میں  ایک قول یہ بھی ہے کہ پیدا ہونے، وفات پانے اور زندہ اٹھائے جانے کے یہ تینوں  دن بہت وحشت ناک ہیں  کیونکہ ان دنوں  میں  آدمی وہ دیکھتا ہے جو اِس سے پہلے اُس نے نہیں  دیکھا ، اس لئے ان تینوں  مَواقع پرانتہائی وحشت ہوتی ہے، تو  اللہ تعالیٰ نے حضرت یحیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اِکرام فرمایا کہ انہیں  ان تینوں  مواقع پر امن و سلامتی عطا فرمائی۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۲۳۰-۲۳۱)

           حضرت سفیان بن عیینہ  رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : کہ انسان کوتین دنوں  میں  وحشت کا سامنا ہوتا ہے، جب وہ پیدا ہوتا ہے تو وہ ماں  کے پیٹ سے باہر آکر ایک نئی دنیا کا سامنا کرتا ہے اور وہ جب مرتا ہے توایسی قوم دیکھتاہے جسے پہلے کبھی نہیں  دیکھا ہوتا اور جب دوبارہ زندہ کیا جائے گا تو اپنے آپ کوایک عظیم محشرمیں  پائے گا جس کی مثل اس نے کبھی نہ دیکھا ہوگا تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت یحیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوان تینوں  وقتوں  میں  امان وسلامتی کا مژدہ دیا۔( بغوی، مریم، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۱۵۹) یاد رہے کہ سلامتی تو یقینا ہر نبی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حاصل ہے لیکن بطورِ خاص  اللہ عَزَّوَجَلَّ کا بشارت دینا ایک جداگانہ فضیلت رکھتا ہے۔

ولادت کے دن خوشی کرنے اور وفات کے دن غم کا اظہار نہ کرنے کی وجہ:

          اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے حضرت یحیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت کے دن ان پر سلام بھیجا،ا س سے معلوم ہو اکہ نبی عَلَیْہِ  السَّلَام کی ولادت کے دن ان پر سلام بھیجنا  اللہ تعالیٰ کی سنت ہے، اسی وجہ سے اہلسنّت وجماعت بارہ ربیع الاوّل کے دن  اللہ تعالیٰ کے حبیب اور تمام اَنبیاء کے سردار صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ولادت کا دن مناتے ہیں  اور اس دن آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر درود وسلام کی کثرت کرتے ہیں ، نظم و نثر کی صورت میں آپ کی شان اور آپ کے فضائل و مناقب بیان کرتے ہیں  ۔ فی زمانہ کچھ لوگ اسی آیتِ مبارکہ کو بیان کر کے یہ اعتراض کرتے ہیں  کہ حضرت یحیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات کے دن بھی ان پر سلام بھیجا گیا ہے اس لئے تم جس طرح رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے میلاد کا دن خوشی کا اظہار کر کے مناتے ہو اسی طرح ان کی وفات کا دن بھی غم ظاہر کر کے منایا کرو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے ہمیں  قرآنِ مجید میں  اپنی نعمت کا چرچا کرنے اور اپنا فضل و رحمت ملنے پر خوشی منانے کا حکم دیا ہے اور چونکہ حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بڑی  اللہ تعالیٰ کی کوئی نعمت نہیں  اور حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی  اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا فضل اور سب سے بڑی رحمت ہیں  اس لئے جس دن  اللہ تعالیٰ نے ہمیں  اپنا حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عطا کیا اس دن ہم آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا میلاد مناتے ، آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان کے چرچے کرتے اور آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دنیا میں  تشریف آوری کے دن خوشیاں  مناتے ہیں ۔