Home ≫ ur ≫ Surah Maryam ≫ ayat 17 ≫ Translation ≫ Tafsir
فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِهِمْ حِجَابًا ﱏ فَاَرْسَلْنَاۤ اِلَیْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا(17)
تفسیر: صراط الجنان
{فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِهِمْ حِجَابًا:تو ان سے ادھر ایک پردہ کرلیا۔} جب حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاخَلْوَت میں تشریف لے گئیں تو آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا نے اپنے اور گھر والوں کے درمیان پردہ کر لیا، اس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاکی طرف حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام کو بھیجا تو آپ عَلَیْہِ السَّلَام حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا کے سامنے نوجوان، بے ریش، روشن چہرے اور پیچ دار بالوں والے آدمی کی صورت میں ظاہر ہوئے۔حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام کے انسانی شکل میں آنے کی حکمت یہ تھی کہ حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا ان کے کلام سے مانوس ہو جائیں اور ان سے خوف نہ کھائیں کیونکہ اگر حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام اپنی ملکوتی شکل میں تشریف لاتے تو حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا خوفزدہ ہو جاتیں اور آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا کلام سننے پر قادر نہ ہوتیں ۔( مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۶۷۰، ملتقطاً)
نوری وجود بشری صورت میں آ سکتا ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ نور ی وجود بشری صورت میں آسکتا ہے۔ حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام فرشتہ ہیں ،نور ہیں اور حضرت مریم کے پاس بشری شکل میں ظاہر ہوئے، اس وقت اس بشری شکل کی وجہ سے (حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام) نورانیت سے علیحدہ نہیں ہو گئے ۔صحابہ کرام نے حضرت جبریل کو بشری شکل میں دیکھا، سیاہ زلفیں ، سفید لباس ، آنکھ، ناک، کان وغیرہ سب موجود ہیں ، اس کے باوجود بھی وہ نور تھے ، اسی طرح حضرت ابراہیم، حضرت لوط، حضرت داؤدعَلَیْہِمُ السَّلَام کے خدمات میں فرشتے شکلِ بشری میں گئے۔ رب فرماتا ہے: ’’هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ الْمُكْرَمِیْنَۘ(۲۴) اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْهِ فَقَالُوْا سَلٰمًاؕ-قَالَ سَلٰمٌۚ-قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَ‘‘(ذاریات:۲۴ ،۲۵)
(ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے محبوب! کیا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر آئی۔جب وہ اس کے پاس آئے تو کہا: سلام،(حضرت ابراہیم نے)فرمایا، ’’سلام ‘‘(تم)اجنبی لوگ ہو۔)
(اور فرماتا ہے)
’’وَ هَلْ اَتٰىكَ نَبَؤُا الْخَصْمِۘ-اِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَۙ(۲۱) اِذْ دَخَلُوْا عَلٰى دَاوٗدَ فَفَزِعَ مِنْهُمْ قَالُوْا لَا تَخَفْۚ-خَصْمٰنِ بَغٰى بَعْضُنَا عَلٰى بَعْضٍ‘‘(ص:۲۱ ،۲۲)
(ترجمۂ کنزُالعِرفان: کیا تمہارے پاس ان دعویداروں کی خبر آئی جب وہ دیوار کود کر مسجد میں آئے ۔جب وہ داؤد پر داخل ہوئے تو وہ ان سے گھبرا گیا۔ انہوں نے عرض کی: ڈرئیے نہیں ہم دو فریق ہیں ، ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے۔)
(اور فرماتا ہے)
’’ وَ لَمَّاۤ اَنْ جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِیْٓءَ بِهِمْ وَ ضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَّ قَالُوْا لَا تَخَفْ وَ لَا تَحْزَنْ- اِنَّا مُنَجُّوْكَ وَ اَهْلَكَ اِلَّا امْرَاَتَكَ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ‘‘(عنکبوت:۳۳)
(ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس آئے توانہیں فرشتوں کا آنا برا لگا اور ان کے سبب دل تنگ ہوا اورفرشتوں نے کہا: آپ نہ ڈریں اور نہ غمگین ہوں ، بیشک ہم آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو بچانے والے ہیں سوائے آپ کی بیوی کے کہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے۔)
ان تمام آیتوں سے معلوم ہوا کہ فرشتے انبیاءِ کرام کی خدمت میں انسانی شکل بشری صورت میں حاضر ہوتے تھے، مگر اس کے باوجود وہ نور بھی ہوتے تھے، غرضیکہ نورانیت و بشریت ضدیں نہیں ۔( رسائل نعیمیہ، رسالہ نور، ص۷۸-۷۹)