Home ≫ ur ≫ Surah Maryam ≫ ayat 68 ≫ Translation ≫ Tafsir
فَوَرَبِّكَ لَنَحْشُرَنَّهُمْ وَ الشَّیٰطِیْنَ ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّهُمْ حَوْلَ جَهَنَّمَ جِثِیًّا(68)
تفسیر: صراط الجنان
{فَوَرَبِّكَ لَنَحْشُرَنَّهُمْ:تو تمہارے رب کی قسم! ہم انہیں جمع کرلیں گے۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کے رب کی قسم! ہم مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرنے والے کافروں کو قیامت کے دن زندہ کر کے انہیں گمراہ کرنے والے شیطانوں کے ساتھ اس طرح جمع کرلیں گے کہ ہر کافر شیطان کے ساتھ ایک زنجیر میں جکڑا ہو گا ، پھر انہیں دوزخ کے آس پاس اس حال میں حاضر کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مشاہدہ کر کے دہشت کے مارے ان سے کھڑا ہونا مشکل ہو جائے گا اور وہ گھٹنوں کے بل گرجائیں گے۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۶۸، ۳ / ۲۴۱-۲۴۲، روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۶۸، ۵ / ۳۴۹) اور کافروں کی ایسی ذلت و رسوائی دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے اولیاء اور سعادت مند بندے اس بات پر بہت خوش ہو رہے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس ذلت سے نجات عطا فرمائی جبکہ ان کے دشمن کفار ان کی سعادت و خوش بختی دیکھ کر حسرت و افسوس اور انہیں برابھلا کہنے پر خود کو ملامت کررہے ہوں گے۔
یاد رہے کہ قیامت کے دن لوگوں پر ایک وقت ایسا آئے گا کہ اس دن کی شدت اور حساب کی سختی دیکھ کر ہر دین والا زانو کے بل گرا ہو گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’وَ تَرٰى كُلَّ اُمَّةٍ جَاثِیَةً‘‘(جاثیہ:۲۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تم ہر گروہ کو زانو کے بل گرے ہوئے دیکھو گے۔
اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ کافروں کو جب جہنم کے قریب حاضر کیا جائے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مشاہدہ کرکے گھٹنوں کے بل گر جائیں گے جیسا کہ زیرِتفسیر آیت میں بیان ہوا، تو ان دونوں آیات میں جدا جدا احوال کا بیان ہے اس لئے ان میں کوئی تَعارُض نہیں ۔
دنیا و آخرت میں شیطان کا ساتھی بننے کاسبب:
اس آیت کی تفسیر میں بیان ہو اکہ کافر اور اسے گمراہ کرنے والا شیطان ایک ساتھ زنجیر میں جکڑ اہو گا، اس مناسبت سے ہم یہاں دنیا اور آخرت میں شیطان کا ساتھی بننے کا ایک سبب بیان کرتے ہیں ، چنانچہ جو شخص قرآنِ مجید سے اس طرح اندھا بن جائے کہ اس کی ہدایتوں کو دیکھے نہ ان سے فائدہ اٹھائے، اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اِعراض کرے اور اس کی گرفت اور عذاب سے بے خوف ہو جائے، دُنْیَوی زندگی کی لذّتوں اور آسائشوں میں زیادہ مشغولیت اور اس کی فانی نعمتوں اور نفسانی خواہشات میں اِنہماک کی وجہ سے قرآن سے منہ پھیر لے تو اللہ تعالیٰ اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتا ہے جو دنیا میں اسے حلال کاموں سے روک کر اور حرام کاموں کی ترغیب دے کر، اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے منع کر کے اور اس کی نافرمانی کا حکم دے کر گمراہ کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اسے کفر کی اندھیری وادیوں میں دھکیل کر حالت ِکفر میں مرواتا ہے اور پھر یہی شیطان قیامت کے دن بھی اس کے ساتھ ہو گا کہ ان دونوں کو ایک ساتھ زنجیر میں جکڑ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ وَ مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَهٗ شَیْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِیْنٌ(۳۶)وَ اِنَّهُمْ لَیَصُدُّوْنَهُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَ یَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ مُّهْتَدُوْنَ(۳۷)حَتّٰۤى اِذَا جَآءَنَا قَالَ یٰلَیْتَ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَیْنِ فَبِئْسَ الْقَرِیْنُ‘‘(زخرف:۳۶-۳۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو رحمٰن کے ذکر سے منہ پھیرے توہم اس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں تو وہ اس کا ساتھی رہتا ہے۔ اور بیشک وہ شیاطین ان کو راستے سے روکتے ہیں اوروہ یہ سمجھتے رہتے ہیں کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں ۔یہاں تک کہ جب وہ کافر ہمارے پاسآئے گا تو(اپنے ساتھی شیطان سے )کہے گا: اے کاش! میرے اور تیرے درمیان مشرق و مغرب کے برابر دوری ہوجائے توتُو کتنا ہی برا ساتھی ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
’’ وَ قَیَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَآءَ فَزَیَّنُوْا لَهُمْ مَّا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ وَ حَقَّ عَلَیْهِمُ الْقَوْلُ فِیْۤ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِۚ-اِنَّهُمْ كَانُوْا خٰسِرِیْنَ‘‘(حم السجدہ:۲۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے کافروں کیلئے کچھ ساتھی مقرر کر دئیے توانہوں نے ان کے لئے ان کے آگے اور ان کے پیچھے کو خوبصورت بنا دیا۔ ان پر بات پوری ہوگئی جو ان سے پہلے گزرے ہوئے جنوں اور انسانوں کے گروہوں پرثابت ہوچکی ہے۔ بیشک وہ نقصان اٹھانے والے تھے۔
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ شر کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کی موت سے ایک سال پہلے اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتا ہے تو وہ جب بھی کسی نیک کام کو دیکھتا ہے وہ اسے برا معلوم ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ اس پر عمل نہیں کرتا اور جب بھی وہ کسی برے کام کو دیکھتا ہے تو وہ اسے اچھا معلوم ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ اس پر عمل کرلیتا ہے۔(مسند الفردوس، باب الالف، ۱ / ۲۴۵، الحدیث: ۹۴۸)
اس میں خاص طور پر کفار اور عمومی طور پرتمام مسلمانوں کے لئے نصیحت ہے کہ وہ ایسے کام کرنے سے بچیں جن کی وجہ سے شیطان کو ان کا ساتھی بنا دیا جائے کیونکہ شیطان انتہائی برا ساتھی ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ مَنْ یَّكُنِ الشَّیْطٰنُ لَهٗ قَرِیْنًا فَسَآءَ قَرِیْنًا‘‘(النساء:۳۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جس کا ساتھی شیطان بن جائے تو کتنا برا ساتھی ہوگیا۔
اور جس کا ساتھی شیطان ہو وہ اپنے انجام پر خود ہی غور کرلے کہ کیساہو گا۔