Home ≫ ur ≫ Surah Muhammad ≫ ayat 1 ≫ Translation ≫ Tafsir
اَلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ صَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَضَلَّ اَعْمَالَهُمْ(1)
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ صَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ: جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا۔} مفسّرین کا ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت مدینہ منورہ کے ان اہلِ کتاب کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے سیِّدُالمرسلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کا انکار کیا۔اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے نبیٔ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان پر نازل ہونے والی کتاب کے ساتھ کفر کیا ،خود بھی اسلام میں داخل نہ ہوئے اور اور دوسروں کو بھی اسلام قبول کرنے سے روکا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان کا وہ ایمان ضائع کر دیاجو یہ لوگ نبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری سے پہلے پچھلے انبیاء کرام اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پررکھتے تھے ۔
دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت کفارِ مکہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ، خود بھی اسلام میں داخل نہ ہوئے اور دوسروں کو بھی اسلام قبول کرنے سے روکا توانہوں نے کفر کی حالت میں جو بھی نیک اعمال کئے ہوں خواہ بھوکوں کو کھلایا ہو، یا اسیروں کو چھڑایا ہو ،یا غریبوں کی مد د کی ہو،یا مسجدِ حرام یعنی خانہ کعبہ کی عمارت میں کوئی خدمت کی ہو،یہ سب اعمال اللہ تعالیٰ نے برباد کر دئیے اور آخرت میں انہیں ان اعمال کا کچھ ثواب نہیں ملے گا کیونکہ ایمان کے بغیر کوئی نیکی قبول نہیں ۔
بعض مفسّرین کے نزدیک یہاں کفارِ مکہ کے وہ افراد مراد ہیں جو اپنے کفر کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی ایمان قبول کرنے سے روکتے تھے اور حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خلاف سازشیں کرتے تھے تو ان کافروں نے سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے جو سازشیں تیار کیں ، مکر سوچے اور حیلے بنائے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کے وہ تمام کام باطل کردیئے اور ان کے مقابلے میں اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مدد و نصرت فرمائی اور ان کے دین کو تمام دینوں پر غالب کر دیا۔
تیسرا قول یہ ہے کہ ا س آیت کا تعلق سورہِ احقاف کی آخری آیت کے ساتھ ہے ،اُس کے آخر میں ارشاد فرمایا گیاکہ ’’نافرمان لوگ ہی ہلاک کئے جاتے ہیں ‘‘ اس پر گویا یہ سوال پیدا ہوا کہ نافرمان لوگوں کو کیسے ہلاک کیا جاتا ہے حالانکہ وہ تو نیک اعمال کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ کسی کا نیک عمل ضائع نہیں فرماتا اگرچہ وہ رائی کے دانے کے برابر ہو؟اس کے جواب میں یہاں ارشاد فرمایاگیا کہ نافرمان وہ لوگ ہیں جو خود اسلام میں داخل نہ ہوئے اور دوسروں کو انہوں نے اسلام قبول کرنے سے روکا، (اور یہ اس طرح ہلاک ہوئے کہ) اللہ تعالیٰ نے ان کے تمام نیک اعمال برباد کر دئیے اور آخرت میں انہیں ان اعمال کا کچھ ثواب نہیں ملے گا کیونکہ ایمان کے بغیر کوئی نیک عمل مقبول نہیں۔(تاویلات اہل السنہ، محمد، تحت الآیۃ:۱، ۴ / ۴۹۹، مدارک، محمد،تحت الآیۃ:۱،ص۱۱۳۲، جلالین،القتال،تحت الآیۃ:۱، ص۴۱۹، خازن، محمد،تحت الآیۃ:۱،۴ / ۱۳۳، روح المعانی، محمد،تحت الآیۃ:۱،۱۳ / ۲۶۹-۲۷۰، ملتقطاً)
کفر نیک اعمال کی بربادی کا سبب ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ کفر نیک اعمال کی بربادی کا بہت بڑا سبب ہے ۔یاد رہے کہ جس طرح کفر کی حالت میں کئے گئے نیک اعمال باطل اور بے کار ہیں اورآخرت میں ان کا کوئی اجر و ثواب نہیں ، اسی طرح ایمان کی حالت میں کئے گئے نیک اعمال بھی کفر کرنے کی صورت میں ضائع ہو جاتے ہیں اور ان کے ثواب سے بھی بندہ محروم کر دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَیَمُتْ وَ هُوَ كَافِرٌ فَاُولٰٓىٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ‘‘(بقرہ:۲۱۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تم میں جو کوئی اپنے دین سے مرتد ہوجائے پھر کافر ہی مرجائے تو ان لوگوں کے تمام اعمال دنیا و آخرت میں برباد ہوگئے اور وہ دوزخ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
اور ارشاد فرماتا ہے :
’’قَدْ یَعْلَمُ اللّٰهُ الْمُعَوِّقِیْنَ مِنْكُمْ وَ الْقَآىٕلِیْنَ لِاِخْوَانِهِمْ هَلُمَّ اِلَیْنَاۚ-وَ لَا یَاْتُوْنَ الْبَاْسَ اِلَّا قَلِیْلًاۙ(۱۸)اَشِحَّةً عَلَیْكُمْ ۚۖ-فَاِذَا جَآءَ الْخَوْفُ رَاَیْتَهُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْكَ تَدُوْرُ اَعْیُنُهُمْ كَالَّذِیْ یُغْشٰى عَلَیْهِ مِنَ الْمَوْتِۚ-فَاِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوْكُمْ بِاَلْسِنَةٍ حِدَادٍ اَشِحَّةً عَلَى الْخَیْرِؕ-اُولٰٓىٕكَ لَمْ یُؤْمِنُوْا فَاَحْبَطَ اللّٰهُ اَعْمَالَهُمْؕ-وَ كَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرًا‘‘(احزاب:۱۸، ۱۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ تم میں سے ان لوگوں کو جانتا ہے جو دوسروں کو جہاد سے روکتے ہیں اور اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں : ہماری طرف چلے آؤ اور وہ لڑائی میں تھوڑے ہی آتے ہیں ۔ تمہارے اوپر بخل کرتے ہوئے آتے ہیں پھر جب ڈر کا وقت آتا ہے توتم انہیں دیکھو گے کہ تمہاری طرف یوں نظر کرتے ہیں کہ ان کی آنکھیں گھوم رہی ہیں جیسے کسی پر موت چھائی ہوئی ہو پھر جب ڈر کا وقت نکل جاتا ہے تومال غنیمت کی لالچ میں تیز زبانوں کے ساتھ تمہیں طعنے دینے لگتے ہیں ۔ یہ لوگ ایمان لائے ہی نہیں ہیں تو اللہ نے ان کے اعمال برباد کردئیے اور یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔
لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ نیک اعمال کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ایمان کی حفاظت کرنے کی بھی بھرپور کوشش کریں اور ہر ایسے قول اور فعل سے بچیں جس سے مسلمان کا ایمان ضائع ہو جاتا ہے ۔