Home ≫ ur ≫ Surah Muhammad ≫ ayat 38 ≫ Translation ≫ Tafsir
هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۚ-فَمِنْكُمْ مَّنْ یَّبْخَلُۚ-وَ مَنْ یَّبْخَلْ فَاِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهٖؕ-وَ اللّٰهُ الْغَنِیُّ وَ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُۚ-وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَكُمْۙ-ثُمَّ لَا یَكُوْنُوْۤا اَمْثَالَكُمْ(38)
تفسیر: صراط الجنان
{هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ تُدْعَوْنَ: ہاں ہاں یہ تم ہو جوبلائے جاتے ہو۔} ارشاد فرمایا کہ ہاں ہاں ،تم لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں وہاں خرچ کرنے کے لئے بلایا جاتا ہے جہاں خرچ کرنا تم پر ضروری ہے تو تم میں کوئی صدقہ دینے اور فرض ادا کرنے میں بخل کرتا ہے اور جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان سے بخل کرتا ہے کیونکہ وہ خرچ کرنے کے ثواب سے محروم ہو جائے گا اور بخل کرنے کا نقصان اٹھائے گا ، اللہ تعالیٰ تمہارے صدقات اور طاعات سے بالکل بے نیاز ہے اور تم سب اس کے فضل و رحمت کے محتاج ہو تو وہ تمہیں جو بھی حکم دیتا ہے تمہارے فائدے کے لئے ہی دیتا ہے،اگر تم اس پر عمل کرو گے تو نفع اٹھاؤ گے اور نہیں کرو گے تو نقصان بھی تمہیں ہی ہو گا اور یاد رکھو! اگر تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت سے منہ پھیرو گے تو وہ تمہیں ہلاک کر دے گا اور تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو پیدا کر دے گا پھر وہ تم جیسے نافرمان نہ ہوں گے بلکہ انتہائی اطاعت گزار اورفرمانبردار ہوں گے ۔( خازن، محمد، تحت الآیۃ: ۳۸، ۴ / ۱۴۳، مدارک، محمد، تحت الآیۃ: ۳۸، ص۱۱۳۸-۱۱۳۹، روح البیان، محمد، تحت الآیۃ: ۳۸، ۸ / ۵۲۵-۵۲۷، ملتقطاً)
فرض جگہ پر مال خرچ کرنے کا دینی اور دنیوی فائدہ:
یاد رہے کہ بعض مقامات پر مال خرچ کرنا اللہ تعالیٰ نے فرض فرمایا ہے جیسے حقدار کو زکوٰۃ دینا، اور یہ اس وجہ سے ہر گز نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو لوگوں کے مال کی حاجت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام حاجتوں سے بے نیاز ہے بلکہ بندے ہی ہر طرح سے اس کے محتاج ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان پر جو مال خرچ کرنا فرض فرمایا اس میں بندوں کا ہی دینی اور دنیوی فائدہ ہے ،دینی فائدہ تو یہ ہے کہ مال خرچ کرنے کی صور ت میں وہ ثواب کے حقدار ٹھہریں اور نہ خرچ کرنے کے وبال سے بچ جائیں گے جبکہ دنیوی فائدہ یہ ہے کہ اگراپنے معاشرے کے غریب اورمَفْلُوکُ الحال لوگوں کوزکوٰۃ ملے گی تو انہیں معاشی سکون نصیب ہو گا،معاشرے سے غربت اور محتاجی کا خاتمہ ہو گا۔اسلام کے ابتدائی زمانے میں ایک دور ایسا آچکا ہے جس میں مالدار مسلمان اسلام کے احکام پر پوری طرح عمل کرتے ہوئے اپنی زکوٰۃ وغیرہ غریب مسلمانوں پر خوب خرچ کیا کرتے تھے جس کی وجہ سے مسلمانوں میں غربت کا خاتمہ ہوا اورمسلمانوں نے ترقی کی بلندیوں کو چھوا اور اسلام کے آخری زمانے میں بھی ایک وقت ایسا آئے گا جس میں مسلمان اتنے مالدار ہوجائیں گے کہ ان میں بڑی مشکل سے زکوٰۃ لینے والا ملے گا، جیسا کہ حضرت حارِثَہ بن وَہْب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’صدقہ کرو کیونکہ تم پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ ایک شخص اپنا صدقہ لے کر چلے گا تو کوئی اسے قبول کرنے والا نہ ملے گا۔آدمی کہے گا: اگر تم کل لاتے تو میں لے لیتا لیکن آج مجھے اس کی ضرورت نہیں ۔( بخاری، کتاب الزکاۃ، باب الصّدقۃ قبل الرد، ۱ / ۴۷۶، الحدیث: ۱۴۱۱)
آج بھی اگرہمارے معاشرے کے مالدار مسلمان اپنی زکوٰۃ ہی صحیح طورپراپنے ملک کے غریبوں کودے دیں توشاید اس ملک میں کوئی غریب نہ رہے اورغربت کے باعث آج معاشرے میں جوبدامنی پھیلی ہوئی ہے وہ ختم ہوجائے اورپوراملک امن وسکون کاگہوارہ بن جائے ۔
بخل کرنے کا دینی اور دنیوی نقصان:
بخل کرنے کے بہت سے دینی اور دنیوی نقصانات ہیں ،ہم یہاں اس کے 5 دینی اور 6 دنیوی نقصانات ذکر کرتے ہیں تاکہ لوگ بخل کرنے سے بچیں ،چنانچہ ا س کے دینی نقصانات یہ ہیں
(1)…بخل کرنے والا کبھی کامل مومن نہیں بن سکتا بلکہ کبھی بخل ایمان سے بھی روک دیتا ہے اور انسان کو کفر کی طرف لے جاتا ہے ،جیسے قارون کو اس کے بخل نے کافر بنا دیا۔
(2)…بخل کرنے والا گویا کہ اس درخت کی شاخ پکڑ رہا ہے جو اسے جہنم کی آگ میں داخل کر کے ہی چھوڑے گی۔
(3)…بخل کی وجہ سے جنت میں داخل ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔
(4)…بخل کرنے والا مال خرچ کرنے کے ثواب سے محروم ہوجاتا اور نہ خرچ کرنے کے وبال میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
(5)…بخل کرنے والا حرص جیسی خطرناک باطنی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے اور اس پر مال جمع کرنے کی دھن سوار ہو جاتی ہے اور ا س کیلئے وہ جائز ناجائز تک کی پرواہ کرنا چھوڑ دیتا ہے۔
اور بخل کے دنیوی نقصانات یہ ہیں :
(1)…بخل آدمی کی سب سے بدتر خامی ہے۔
(2)…بخل ملامت اور رسوائی کا ذریعہ ہے۔
(3)…بخل خونریزی اور فساد کی جڑ اور ہلاکت وبربادی کا سبب ہے ۔
(4)…بخل ظلم کرنے پر ابھارتا ہے۔
(5)…بخل کرنے سے رشتہ داریاں ٹوٹتی ہیں ۔
(6)…بخل کرنے کی وجہ سے آدمی مال کی برکت سے محروم ہوجاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی راہ میں مال خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور بخل جیسی بد ترین باطنی بیماری سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔
{وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا: اور اگر تم منہ پھیرو گے۔} علامہ احمدصاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :آیت کے اس حصے میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے خطاب ہے(اگر ایسا ہے) تو (یہ تبدیلی بالفعل حاصل نہیں ہوئی بلکہ) اس سے مقصود محض ڈرانا ہے کیونکہ صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ (کو یہ مقام حاصل ہے کہ ان) کے بعد کوئی شخص بھی ان کے رتبے تک نہیں پہنچ سکتا اور شرط کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اس کا وقوع بھی ہو (یعنی جیسے کوئی اپنے نوکر سے کہے کہ اگر تم نے صحیح کام نہ کیا تو میں تمہیں نوکری سے نکال دوں گا تو اس کہنے کے بعد ضروری نہیں کہ نوکر غلط کام ضرور کرے گابلکہ یہ محض سمجھانا تھا)۔ یا یہاں خطاب منافقوں سے ہے،(اگر ایسا ہے) تو یہ تبدیلی بالفعل ہوئی ہے (اور ان کی جگہ دوسرے لوگ آئے ہیں جو ان جیسے نہ تھے بلکہ مخلص اور انتہائی اطاعت گزار مومن تھے۔)( صاوی، محمد، تحت الآیۃ: ۳۸، ۵ / ۱۹۶۴)