Home ≫ ur ≫ Surah Nuh ≫ ayat 23 ≫ Translation ≫ Tafsir
قَالَ نُوْحٌ رَّبِّ اِنَّهُمْ عَصَوْنِیْ وَ اتَّبَعُوْا مَنْ لَّمْ یَزِدْهُ مَالُهٗ وَ وَلَدُهٗۤ اِلَّا خَسَارًا(21)وَ مَكَرُوْا مَكْرًا كُبَّارًا(22)وَ قَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِهَتَكُمْ وَ لَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّ لَا سُوَاعًا ﳔ وَّ لَا یَغُوْثَ وَ یَعُوْقَ وَ نَسْرًاﭤ(23)
تفسیر: صراط الجنان
{ قَالَ نُوْحٌ: نوح نے عرض کی۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو اللّٰہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی اور طرح طرح کے دلائل سے انہیں تنبیہ کی ،اب یہاں سے ان لوگوں کی مختلف قَولی اور فعلی قباحتیں بیان کی جا رہی ہیں ،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کی ’’اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، بیشک انہوں نے میری نافرمانی کی اور میں نے انہیں جو ایمان لانے اور اِستغفار کرنے کا حکم دیا تھا اِس کو اُنہوں نے نہ مانا اور میری نافرمانی کرنے میں اِن کے عام غریب اور چھوٹے لوگ اُن سرکش رئیسوں اور مال و اولاد والوں کی پیروی کرنے لگے جن کے مال اور اولاد نے اُن کے نقصان ہی کو بڑھایا اور وہ مال کے غرور میں مست ہو کر کفر و سرکشی میں بڑھتے رہے اور ان امیر لوگوں نے بہت بڑے مکرو فریب کئے کہ انہوں نے مجھے جھٹلایا، لوگوں کو ایمان قبول کرنے اور میری دعوت سننے سے روکا،مجھے اور میری پیروی کرنے والوں کو ایذائیں پہنچائیں ۔( تفسیرکبیر،نوح،تحت الآیۃ: ۲۱، ۱۰ / ۶۵۵، خازن، نوح، تحت الآیۃ: ۲۱-۲۲، ۴ / ۳۱۳، مدارک، نوح، تحت الآیۃ: ۲۱-۲۲، ص۱۲۸۴، ملتقطاً)
مال اور اولاد کی کثرت راہِ راست پر ہونے کی دلیل نہیں :
اس سے معلوم ہوا کہ مال اور اولاد کی کثرت کسی کے راہِ راست پر ہونے کی دلیل نہیں بلکہ اکثر اوقات مال اور اولاد کی زیادتی دینی گمراہی اور اُخروی ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے مال اور اولاد کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے:
’’وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌۙ-وَّ اَنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ‘‘(انفال:۲۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جان لوکہ تمہارے مال اور تمہاری اولادایک امتحان ہے اوریہ کہ اللّٰہ کے پاس بڑا ثواب ہے۔
اور کفار کے مال و اولاد کے بارے میں ارشاد فرمایا: ’’فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْؕ-اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ تَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَ هُمْ كٰفِرُوْنَ‘‘(توبہ:۵۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو تمہیں ان کے مال اور ان کی اولاد تعجب میں نہ ڈالیں ، اللّٰہ یہی چاہتا ہے کہ اِن چیزوں کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اِن سے راحت و آرام دور کردے اور کفر کی حالت میں اِن کی روح نکلے۔
اور مال اور اولاد کے حوالے سے مسلمانوں کو حکم ارشاد فرمایا:’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ‘‘(منافقون:۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللّٰہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں اور جو ایسا کرے گاتو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں ۔
لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ کافروں کے مال و دولت اور آسائشوں کو دیکھ کر ان سے مرعوب نہ ہوں اور اپنے مال اور اولاد کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے ذکر سے غافل نہ ہوں بلکہ اس کی اطاعت و فرمانبرداری اور عبادت گزاری میں مصروف رہیں ۔
{وَ قَالُوْا: اورانہوں نے کہا۔} یعنی اور مالدار کافروں نے اپنی عوام سے کہا کہ (حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وجہ سے) اپنے معبودوں کی عبادت ہر گز ترک نہ کرنا اور ہرگز وَدّ ، سُواع ، یَغُوث، یَعُوق اور نَسْر کو نہ چھوڑنا۔
وَدّ اور سُواع وغیرہ بتوں کی تاریخی حیثیت:
وَدّ اور سُواع وغیرہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے ان بتوں کے نام ہیں جنہیں وہ پوجتے تھے۔ اُن لوگوں کے بُت تو بہت تھے مگر یہ پانچ اُن کے نزدیک بڑی عظمت والے تھے ا س لئے بطورِ خاص ان پانچوں کا یہاں ذکر کیا گیا۔ و َدّمرد کی صورت پر تھا ، سُواع عورت کی صورت پر ، یَغوث شیر کی شکل میں ، یَعوق گھوڑے کی شکل میں اور نَسر گدھ کی شکل میں تھا۔بعض مفسرین کے نزدیک یہ بُتحضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم سے منتقل ہو کر عرب میں پہنچے اور مشرکین کے قبائل میں سے ایک ایک نے ایک ایک بُت کو اپنے لئے خاص کرلیا، جیسا کہ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ ان بتوں کو طوفان نے مٹی میں دفن کر دیا تھا تو وہ اس وقت سے مدفون ہی رہے یہاں تک کہ شیطان نے عرب کے مشرکین کے لئے انہیں زمین سے نکال دیا۔( خازن، نوح، تحت الآیۃ: ۲۳، ۴ / ۳۱۳-۳۱۴، مدارک، نوح، تحت الآیۃ: ۲۳، ص۱۲۸۵، ملتقطاً)
اورصحیح بخاری میں ہے، حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ جو بُت حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم میں پوجے جاتے تھے وہی بعد میں اہلِ عرب نے اپنے معبود بنا لئے،چنانچہ وَدّ بنی کلب کا بُت تھا جو دَوْمَۃُ الْجَنْدَلْ کے مقام پر رکھا ہو اتھا۔ سُواع بنی ہُذَیل کا بُت تھا، یَغُوث بنی مراد کا بُت تھا ،پھر بنی غُطَیف کا جو سَبا کے پاس جوف میں تھا۔ یَعُوق ہمدان کا بُت تھا اور نَسْر ذوالکلاع کی آل حِمْیَرْ کا بُت تھا۔ یہ (یعنی وَدّ اور سُواع وغیرہ) حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے نیک آدمیوں کے نام ہیں ،جب وہ وفات پا گئے تو شیطان نے ان کے دلوں میں یہ بات ڈالی کہ جن جگہوں پر وہ اللّٰہ والے بیٹھا کرتے تھے وہاں ان کے مُجَسَّمے بنا کر رکھ دو اور ان بتوں کے نام بھی ان نیک لوگوں کے نام پر ہی رکھ دو۔لوگوں نے عقیدت کے طور پر ایسا کر دیا لیکن ان کی پوجا نہیں کرتے تھے،جب وہ لوگ دنیا سے چلے گئے اور علم بھی کم ہو گیا تو ان مجسموں کی پوجا ہونے لگ گئی۔( بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ انّا ارسلنا، باب ودّاً ولا سواعاً ولا یغوث ویعوق، ۳ / ۳۶۴، الحدیث: ۴۹۲۰)
بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ اہلِ عرب تک وہ بُت نہیں پہنچے بلکہ ان بتوں کے نام پہنچے اور عرب والوں نے ان ناموں کے بعض بُت تراش لئے اور ان کی پوجا کرنے لگ گئے کیونکہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے طوفان کے زمانے میں دنیا تَہَس نَہَس ہو گئی تھی تو یہ بُت کس طرح باقی رہ سکتے ہیں اور (جب وہ باقی نہیں رہے تو) اہلِ عرب کی طرف کس طرح منتقل ہوسکتے ہیں اور یہ کہنا بھی ممکن نہیں کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان بتوں کو کشتی میں رکھ لیا ہو گا کیونکہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تو بُت شِکَن تھے لہٰذا یہ کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بتوں کی حفاظت کی کوشش کرتے ہوئے انہیں کشتی میں رکھ لیا تھا۔( تفسیر کبیر، نوح، تحت الآیۃ: ۲۳، ۱۰ / ۶۵۷، روح البیان، نوح، تحت الآیۃ: ۲۳، ۱۰ / ۱۸۱، ملتقطاً)
حضرت محمد بن کعب قرظی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : وَدّ اور سُواع وغیرہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بیٹوں کے نام ہیں ،یہ بہت عبادت گزار تھے، جب ان میں سے ایک شخص کا انتقال ہوا تو لوگ اس پر شدید غمزدہ ہوئے ، یہ حال دیکھ کر شیطان (انسانی شکل میں ) ان کے پاس آیا اور کہا:تم اپنے ساتھی پر غمگین ہو؟ لوگوں نے جواب دیا: ہاں ۔اس نے کہا:کیا میں تمہارے لئے اس جیسی تصویر بنا دوں جسے تم نماز پڑھتے وقت اپنے سامنے رکھ لینا اور جب تم اسے دیکھو تو وہ ساتھی تمہیں یاد آجائے (اور تمہارے دل کو سکون نصیب ہو) لوگوں نے کہا: ہمیں یہ پسند نہیں کہ نماز پڑھتے وقت ہمارے سامنے کوئی ایسی چیز ہو۔شیطان نے کہا :تو پھر تم اسے مسجد کے آخری کونے میں رکھ دو۔لوگوں نے کہا: ہاں یہ ٹھیک ہے ۔چنانچہ شیطان نے ان کے لئے تصویر بنا دی اور جب پانچوں اَشخاص کا انتقال ہو گیا تو شیطان نے سب کی تصویریں بنا کر مسجد کے کونے میں رکھ دیں ،پھر ایک وقت وہ آیا کہ لوگوں نے اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت چھوڑ کر ان تصویروں کی پوجا شروع کر دی یہاں تک کہ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھیجا جنہوں نے ان لوگوں کو اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور عبادت کی طرف دعوت دی۔( روح المعانی، نوح، تحت الآیۃ: ۲۳، ۱۵ / ۱۲۲، ملخصاً)