banner image

Home ur Surah Nuh ayat 5 Translation Tafsir

قَالَ رَبِّ اِنِّیْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلًا وَّ نَهَارًا(5)فَلَمْ یَزِدْهُمْ دُعَآءِیْۤ اِلَّا فِرَارًا(6)وَ اِنِّیْ كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوْۤا اَصَابِعَهُمْ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ وَ اسْتَغْشَوْا ثِیَابَهُمْ وَ اَصَرُّوْا وَ اسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا(7)ثُمَّ اِنِّیْ دَعَوْتُهُمْ جِهَارًا(8)ثُمَّ اِنِّیْۤ اَعْلَنْتُ لَهُمْ وَ اَسْرَرْتُ لَهُمْ اِسْرَارًا(9)

ترجمہ: کنزالایمان عرض کی اے میرے رب میں نے اپنی قوم کو رات دن بلایا۔ تو میرے بلانے سے انہیں بھاگنا ہی بڑھا۔ اور میں نے جتنی بار انہیں بلایا کہ تو ان کو بخشے انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیں اور اپنے کپڑے اوڑھ لیے اور ہَٹ کی اور بڑا غرور کیا۔ پھر میں نے انہیں علانیہ بلایا۔ پھر میں نے ان سے بَا علان بھی کہا اور آہستہ خفیہ بھی کہا۔ ترجمہ: کنزالعرفان عرض کی: اے میرے رب!بیشک میں نے اپنی قوم کو رات دن دعوت دی۔ تو میرے بلانے سے ان کے بھاگنے میں ہی اضافہ ہوا۔ اوربیشک میں نے جتنی بار انہیں بلایاتا کہ توانہیں بخش دے توانہوں نے اپنے کانوں میں اپنی انگلیاں ڈال لیں اور اپنے کپڑے اوڑھ لیے اوروہ ڈٹ گئے اور بڑا تکبر کیا۔ پھر یقینا میں نے انہیں بلند آواز سے دعوت دی۔ پھر یقینا میں نے ان سے اعلانیہ بھی کہا اور آہستہ خفیہ بھی کہا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ قَالَ رَبِّ: عرض کی: اے میرے رب!۔} یہاں  سے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف سے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  کی گئی مُناجات بیان فرمائی گئی ہیں  چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی چار آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم تک اللّٰہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا اوراس چیز سے ڈرایا جس سے ڈرانے کا اللّٰہ تعالیٰ نے حکم دیا تھاتو قوم نے ان کی بات نہ مانی اور حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے جو احکامات لے کر آئے تھے انہیں  رد کر دیا،اس پر حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  عرض کی: ’’اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، (تو جانتا ہے کہ) میں  نے اپنی قوم کو رات دن تیری توحید اور تیری عبادت کی طرف بلایا،تیرے عذاب اور تیری قدرت سے ڈرایا لیکن (ان کے طبعی فتور کی بنا پر) میرے بلانے سے ان کے بھاگنے میں  ہی اضافہ ہوا اور جتنی انہیں  ایمان لانے کی ترغیب دی گئی اُتنی ہی اِن کی سرکشی بڑھتی گئی اور میں  نے جتنی بار انہیں  تیری وحدانیَّت کا اقرار کرنے، تیرے احکامات پر عمل کرنے اور تیرے علاوہ تمام معبودوں  سے براء ت کا اظہار کرنے کی طرف بلایاتا کہ توانہیں  بخش دے توانہوں  نے اپنے کانوں  میں  انگلیاں  ڈال لیں  تاکہ میری دعوت کو سن نہ سکیں  اور اپنے کپڑے اوڑھ لیے اور منہ چُھپالئے تاکہ مجھے دیکھ نہ سکیں  کیونکہ انہیں  اللّٰہ تعالیٰ کے دین کی طرف نصیحت کرنے والے کو دیکھنا بھی گوارا نہ تھا اور وہ اپنے شرک و کفر پر ڈٹ گئے اور بڑا تکبُّر کیا اور میری دعوت کو قبول کرنا اپنی شان کے خلاف جانا۔ پھر میں  نے انہیں  محفلوں  میں  ا س طرف بلند آواز سے ا علانیہ بلایا جس طرف بلانے کا تو نے مجھے حکم دیاتھا، پھر میں  نے ان سے اعلانیہ بھی کہا اور اعلانیہ دعوت دینے کی تکرار بھی کی اور ایک ایک سے آہستہ اور خفیہ بھی کہا اور دعوت دینے میں  کوئی کسر نہ چھوڑی۔( تفسیر طبری ، نوح ، تحت الآیۃ : ۵-۹ ، ۱۲ / ۲۴۷-۲۴۸، مدارک، نوح، تحت الآیۃ: ۵-۹، ص۱۲۸۳، خازن، نوح، تحت الآیۃ: ۵-۹، ۴ / ۳۱۲، ملتقطاً)