Home ≫ ur ≫ Surah Sad ≫ ayat 17 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ قَالُوْا رَبَّنَا عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ یَوْمِ الْحِسَابِ(16)اِصْبِرْ عَلٰى مَا یَقُوْلُوْنَ وَ اذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوٗدَ ذَا الْاَیْدِۚ-اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ(17)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالُوْا: اورانہوں نے کہا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ نضر بن حارث نے مذاق اڑانے کے طور پر کہا’’اے ہمارے رب!جہنم کے عذاب کا ہمارا حصہ ہمیں حساب کے دن سے پہلے دنیا میں ہی جلد دیدے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا کہ آپ ان کفار کی باتوں پر صبر کریں اور ان کی اَذِیَّتوں کو برداشت کریں ۔ اس کے بعد فرمایا کہ ہمارے نعمتوں والے بندے حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یاد کریں بیشک وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف ہر حال میں رجوع کرنے والا ہے ۔ایک برگزیدہ نبی کو یاد کرنے کاحکم دینے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت پر دل مضبوط ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے مقبول و محبوب بندوں کو اپنے فضل و کرم سے نوازتا ہے، لہٰذااگر حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کفار کی طرف سے ایذاء پہنچ رہی ہے تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ فضلِ الٰہی ان سب غموں کو دھودے گا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ’’ ذَا الْاَیْدِ‘‘سے مراد یہ ہے کہ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام عبادت میں بہت قوت والے تھے۔( خازن، ص، تحت الآیۃ: ۱۶-۱۷، ۴ / ۳۲، مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۱۶-۱۷، ص۱۰۱۶-۱۰۱۷، ملتقطاً)
حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عبادت کا حال:
حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عبادت کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے (نفلی) روزے سب روزوں سے پسند ہیں ، (ان کا طریقہ یہ تھا کہ) وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن چھوڑ دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی (نفل) نماز سب نمازوں سے پسند ہے،وہ آدھی رات تک سوتے،تہائی رات عبادت کرتے ،پھر باقی چھٹا حصہ سوتے تھے۔( بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب احبّ الصلاۃ الی اللّٰہ صلاۃ داود۔۔۔ الخ، ۲ / ۴۴۸، الحدیث: ۳۴۲۰)
اور بعض اوقات اس طرح کرتے کہ ایک دن روزہ رکھتے ایک دن افطار فرماتے اور رات کے پہلے نصف حصہ میں عبادت کرتے اس کے بعد رات کی ایک تہائی آرام فرماتے پھر باقی چھٹا حصہ عبادت میں گزارتے۔( جلالین مع جمل، ص، تحت الآیۃ: ۱۷، ۶ / ۳۷۵)
سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عبادت کا حال:
یہاں حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عبادت کا حال بیان ہوا،اسی مناسبت سے یہاں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عبادت میں سے نماز اور روزہ کا حال بھی ملاحظہ ہو، چنانچہ علامہ عبد المصطفٰی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اعلانِ نبوت سے قبل بھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غارِ حرا میں قیام و مُراقبہ اور ذکر و فکر کے طور پر خدا عَزَّوَجَلَّ کی عبادت میں مصروف رہتے تھے، نزولِ وحی کے بعد ہی آپ کو نماز کا طریقہ بھی بتا دیا گیا، پھر شب ِمعراج میں نمازِ پنجگانہ فرض ہوئی۔ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نمازِ پنجگانہ کے علاوہ نمازِ اِشراق، نماز ِچاشت،تَحِیَّۃُ الوضوئ، تَحِیَّۃُ المسجد، صلوٰۃُ الاَوَّابین وغیرہ سُنن و نوافل بھی ادا فرماتے تھے۔ راتوں کو اٹھ اٹھ کر نمازیں پڑھا کرتے تھے۔ تمام عمر نمازِ تہجد کے پابند رہے، راتوں کے نوافل کے بارے میں مختلف روایات ہیں ۔ بعض روایتوں میں یہ آیا ہے کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نمازِ عشاء کے بعد کچھ دیر سوتے ،پھر کچھ دیر تک اٹھ کر نماز پڑھتے پھر سو جاتے، پھر اٹھ کر نماز پڑھتے۔ غرض صبح تک یہی حالت قائم رہتی۔ کبھی دو تہائی رات گزر جانے کے بعد بیدار ہوتے اور صبح صادق تک نمازوں میں مشغول رہتے۔کبھی نصف رات گزر جانے کے بعد بسترسے اٹھ جاتے اور پھر ساری رات بستر پر پیٹھ نہیں لگاتے تھے اور لمبی لمبی سورتیں نمازوں میں پڑھا کرتے ،کبھی رکوع و سجود طویل ہوتا کبھی قیام طویل ہوتا۔ کبھی چھ رکعت،کبھی آٹھ رکعت ،کبھی اس سے کم کبھی اس سے زیادہ۔ اخیر عمر شریف میں کچھ رکعتیں کھڑے ہو کر کچھ بیٹھ کر ادا فرماتے، نمازِ وتر نمازِ تہجد کے ساتھ ادا فرماتے، رمضان شریف خصوصاً آخری عشرہ میں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی عبادت بہت زیادہ بڑھ جاتی تھی۔ آپ ساری رات بیدار رہتے اور اپنی ازواجِ مُطَہّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ سے بے تعلق ہو جاتے تھے اور گھر والوں کو نمازوں کے لئے جگایا کرتے تھے اور عموماً اعتکاف فرماتے تھے۔ نمازوں کے ساتھ ساتھ کبھی کھڑے ہو کر، کبھی بیٹھ کر، کبھی سربسجود ہو کر نہایت آہ و زاری اور گِریہ و بُکا کے ساتھ گِڑگڑا گڑگڑا کر راتوں میں دعائیں بھی مانگا کرتے، رمضان شریف میں حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے ساتھ قرآنِ عظیم کا دور بھی فرماتے اور تلاوتِ قرآنِ مجید کے ساتھ ساتھ طرح طرح کی مختلف دعاؤں کا ورد بھی فرماتے تھے اور کبھی کبھی ساری رات نمازوں اور دعاؤں میں کھڑے رہتے یہاں تک کہ پائے اَقدس میں ورم آ جایا کرتا تھا۔
رمضان شریف کے روزوں کے علاوہ شعبان میں بھی قریب قریب مہینہ بھر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ روزہ دار ہی رہتے تھے۔ سال کے باقی مہینوں میں بھی یہی کَیفِیَّت رہتی تھی کہ اگر روزہ رکھنا شروع فرما دیتے تو معلوم ہوتا تھا کہ اب کبھی روزہ نہیں چھوڑیں گے ،پھر ترک فرما دیتے تو معلوم ہوتا تھا کہ اب کبھی روزہ نہیں رکھیں گے۔ خاص کر ہر مہینے میں تین دن اَیّامِ بِیض کے روزے، دو شَنبہ و جمعرات کے روزے، عاشوراء کے روزے، عشرۂ ذُوالحجہ کے روزے، شوال کے چھ روزے معمولاً رکھا کرتے تھے۔ کبھی کبھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ’’صَومِ وصال‘‘ بھی رکھتے تھے، یعنی کئی کئی دن رات کا ایک روزہ، مگر اپنی امت کو ایسا روزہ رکھنے سے منع فرماتے تھے، بعض صحابہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کیا کہ یا رسولَ اللہ ! (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) آپ تو صومِ وصال رکھتے ہیں ۔ ارشاد فرمایا کہ تم میں مجھ جیسا کون ہے؟ میں اپنے رب کے دربار میں رات بسر کرتا ہوں اور وہ مجھ کو کھلاتا اور پلاتا ہے(بخاری، کتاب التمنی، باب ما یجوز من اللّو، ۴ / ۴۸۸، الحدیث: ۷۲۴۲)۔( سیرت مصطفٰی، شمائل وخصائل، نماز، روزہ، ص۵۹۵-۵۹۷)
ویسے تو ہر انسان اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے لیکن تعریف کے قابل وہ بندہ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ خود فرما دے کہ یہ ہمارا بندہ ہے،اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنا بندہ فرمایا اور یہ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عظمت و شرافت اور فضیلت کی بہت بڑی دلیل ہے، یونہی اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوقرآنِ پاک میں کئی مقامات پر اپنا بندہ فرمایا،جیسے ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
’’اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ‘‘(انفال:۴۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اگر تم اللہ پر اور اس پر ایمان رکھتے ہو جو ہم نے اپنے خاص بندے پر فیصلہ کے دن اتارا۔
اور ارشاد فرمایا:
’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلٰى عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَ لَمْ یَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًا‘‘(الکھف:۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل فرمائی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہیں رکھی۔
اور ارشاد فرمایا
’’سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا‘‘(بنی اسرائیل:۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے خاص بندے کو رات کے کچھ حصے میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی۔ اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فضیلت کا کمال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنا بندہ فرماتا ہے اور اپنے بارے میں فرماتا ہے کہ میں ان کا رب ہوں ،چنانچہ ارشاد فرمایاکہ
’’فَوَرَبِّكَ لَنَسْــٴَـلَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَ‘‘(حجر:۹۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو تمہارے رب کی قسم !ہم ضرور انسب سے پوچھیں گے۔