Home ≫ ur ≫ Surah Sad ≫ ayat 71 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ(71)فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ(72)فَسَجَدَ الْمَلٰٓىٕكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَ(73)اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اِسْتَكْبَرَ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(74)قَالَ یٰۤاِبْلِیْسُ مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّؕ-اَسْتَكْبَرْتَ اَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِیْنَ(75)قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُؕ-خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ(76)قَالَ فَاخْرُ جْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِیْمٌ(77)وَّ اِنَّ عَلَیْكَ لَعْنَتِیْۤ اِلٰى یَوْمِ الدِّیْنِ(78)
تفسیر: صراط الجنان
{اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ: جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا۔} کفار ِمکہ چونکہ حسد اور تکبر کی بنا پرسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جھگڑتے تھے ،اِس لئے یہاں ایک بار پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق اور ابلیس کے سجدہ نہ کرنے کا واقعہ بیان فرمایا تاکہ اسے سن کر وہ عبرت حاصل کریں اور اپنے حسد و تکبر سے باز آ جائیں ۔( تفسیرکبیر، ص، تحت الآیۃ: ۷۱، ۹ / ۴۰۹)
یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ سورۂ بقرہ کے چوتھے رکوع میں بیان ہوچکا ہے اور ا س کے علاوہ سورۂ اعراف،سورۂ حجر،سورۂ بنی اسرائیل اورسورۂ کہف میں بھی بیان ہو چکا ہے۔ اس آیت اور اس کے بعد والی سات آیات میں بیان کئے گئے واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں مٹی سے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پیدا کروں گا،پھر جب میں اس کی پیدائش مکمل کردوں اور اس میں اپنی خاص روح پھونک کر اسے زندگی عطا کردوں تو تم اس کے لیے سجدے میں چلے جانا ،جب حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق کے مراحل مکمل ہوئے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے تمام فرشتو ں نے اکٹھے سجدہ کیا لیکن ابلیس نے سجدہ نہ کیا،اس نے تکبُّر کیا اور وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں کافروں میں سے ہی تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے ابلیس! تجھے اس آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوسجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا؟کیا تو نے تکبر کیاہے یا تو (پہلے ہی) اس قوم میں سے تھاجن کا شیوہ ہی تکبر ہے۔ ابلیس نے کہا: میں اس سے بہتر ہوں کیونکہ تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے پیدا کیا ۔اس سے ابلیس کی مراد یہ تھی کہ اگر حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آگ سے پیداکئے جاتے اور میرے برابر بھی ہوتے جب بھی میں انہیں سجدہ نہ کرتا چہ جائیکہ ان سے بہتر ہو کر انہیں سجدہ کروں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تو جنت سے نکل جا کہ بیشک تو اپنی سرکشی ،نافرمانی اور تکبر کے باعث دھتکارا ہوا ہے اور بیشک قیامت تک تجھ پر میری لعنت ہے اور قیامت کے بعد لعنت بھی اور طرح طرح کے عذاب بھی ہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی صورت بدل دی ،وہ پہلے حسین تھا بدشکل رُوسیاہ کردیا گیا اور اس کی نورانیّت سَلب کردی گئی۔( مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۷۱-۷۸، ص۱۰۲۷-۱۰۲۸، خازن، ص، تحت الآیۃ: ۷۱-۷۸، ۴ / ۴۷، ملتقطاً)