Home ≫ ur ≫ Surah Sad ≫ ayat 86 ≫ Translation ≫ Tafsir
قُلْ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِیْنَ(86)اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ(87)وَ لَتَعْلَمُنَّ نَبَاَهٗ بَعْدَ حِیْنٍ(88)
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ: تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ مشرکین سے فرما دیں کہ میں وحی کی تبلیغ اور رسالت کی ادائیگی پر تم سے دنیا کا مال طلب نہیں کرتا بلکہ میں کسی اجرت کے بغیر تمہیں دین کی تعلیم دیتا ہوں اورمیں جھوٹ گھڑنے والوں میں سے نہیں ہوں کہ میں نے اپنی طرف سے نبوت کا دعویٰ کر دیا ہو اور قرآنِ پاک میں نے اپنے پاس سے بنا لیا ہو۔( روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۸۶، ۸ / ۶۷) بلکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا سردار بنایا ہے اور یہ قرآنِ پاک بھی اسی کی طرف سے نازل ہو اہے۔
اس آیت سے اشارۃً معلوم ہوا کہ عالِم کو اگر کوئی مسئلہ معلوم نہ ہوتو وہ خاموشی اختیار کرے اور خود گھڑ کر نہ بتائے کہ یہ بھی تکَلُّف میں داخل ہے۔ حضرت مسروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ایک شخص کِندہ میں یہ بیان کر رہا تھا کہ قیامت کے دن ایک ایسا دھواں آئے گا جو منافقوں کے کانوں اور آنکھوں میں داخل ہو جائے گا اور اہلِ ایمان کو اس سے صرف اتنی تکلیف پہنچے گی جیسے زکام ہو جاتا ہے۔یہ سن کر ہم ڈر گئے، چنانچہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی خدمت میں حاضر ہو گیا اور وہ ٹیک لگائے ہوئے تھے (جب میں نے واقعہ بیان کیا ) تو وہ غضبناک ہوئے، پھر سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا’’جو کسی بات کو جانتا ہو تو کہے اور جو نہ جانتا ہو تو اسے کہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کیونکہ یہ بھی علم ہی سے ہے کہ جس بات کو نہ جانے تو کہہ دے کہ میں نہیں جانتا ،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا:
’’ قُلْ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِیْنَ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ: میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا اور میں جھوٹ گھڑنے والوں میں سے نہیں ہوں۔( بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ الم، ۳ / ۴۹۷، الحدیث: ۴۷۷۴)
حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے ایک خطبے میں فرمایا’’جو آدمی کسی چیز کا علم رکھتا ہو تو اسے چاہئے کہ وہ لوگوں کو سکھائے اور وہ بات کہنے سے بچے جس کا علم نہ رکھتا ہو ورنہ وہ دین سے نکل جائے گا اور تکَلُّف کرنے والوں میں سے ہو گا۔( سنن دارمی، المقدمۃ، باب فی الذی یفتی الناس فی کلّ ما یستفتی، ۱ / ۷۴، الحدیث: ۱۷۴)
اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ لَتَعْلَمُنَّ نَبَاَهٗ: اور ضرور تم اس کی خبر جان لو گے۔} یعنی اے کفار مکہ! ضرور تم ایک وقت کے بعد قرآن کی خبروں کے حق اور سچا ہونے کو جان جاؤ گے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ ا س وقت سے مراد موت کے بعد کا وقت ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے قیامت کا دن آ جانے کے بعد کا وقت مراد ہے۔( خازن، ص، تحت الآیۃ: ۸۸، ۴ / ۴۸)