Home ≫ ur ≫ Surah Taha ≫ ayat 112 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا یَخٰفُ ظُلْمًا وَّ لَا هَضْمًا(112)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ:اور جو کوئی اسلام کی حالت میں کچھ نیک اعمال کرے۔} ارشاد فرمایا کہ جو کوئی اسلام کی حالت میں کچھ نیک اعمال کرے تو اسے اس بات کا خوف نہ ہو گا کہ وعدے کے مطابق وہ جس ثواب کا مستحق تھا وہ اسے نہ دے کر اس کے ساتھ زیادتی کی جائے گی اور نہ ہی اسے کم ثواب دئیے جانے کا اندیشہ ہو گا۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۵ / ۴۳۱)
نیک اعمال کی قبولیت ایمان کے ساتھ مشروط ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ طاعت اور نیک اعمال سب کی قبولیت ایمان کے ساتھ مشروط ہے کہ ایمان ہو تو سب نیکیاں کار آمد ہیں اور ایمان نہ ہو تویہ سب عمل بے کار ،ہاں ایمان لانے کے بعد کفر کے زمانے کی نیکیاں بھی قبول ہو جاتی ہیں ، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے۔
نیک اعمال اور لوگوں کا حال:
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اس آیت سے معلوم ہو ا کہ ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ نیک اعمال میں مشغول رہے اور گناہوں سے رک جائے کیونکہ قیامت کے دن ہر شخص اپنے اعمال کے درخت کا پھل پائے گا اور جیسے اس کے اعمال ہوں گے ویسے انجام تک وہ پہنچ جائے گا اور نیک اعمال میں سب سے افضل فرائض کو ادا کرنا اور حرام و ممنوع کاموں سے بچنا ہے ۔ (اسی سے متعلق ایک حکایت ملاحظہ ہو،چنانچہ) ایک مرتبہ خلیفہ سلیمان بن عبد الملک نے حضرت ابو حازم رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے عرض کی : مجھے نصیحت کیجئے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا ’’تم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی پاکی بیان کرتے رہو اور اس بات کو بہت بڑ اجانو کہ تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ تمہیں وہاں دیکھے جہاں اس نے تمہیں منع کیا ہے اور وہاں تجھے موجود نہ پائے جہاں موجود ہونے کا اس نے تمہیں حکم دیا ہے۔
اور نیک اعمال کے سلسلے میں لوگوں کی ایک تعدادکا یہ حال ہے کہ وہ نفلی کاموں میں تو بہت جلدی کرتے ہیں ، لمبے لمبے اور کثیر اوراد ووظائف پابندی سے پڑھتے ہیں ، مشکل اور بھاری نفلی کام کرنے میں رغبت رکھتے ہیں جبکہ وہ کام جنہیں کرنا ان پر فرض و واجب ہے ان میں سستی سے کام لیتے ہیں اور انہیں صحیح طریقے سے ادا بھی نہیں کرتے ۔
ایک بزرگ فرماتے ہیں : نفسانی خواہش کی پیروی کی ایک علامت یہ ہے کہ بندہ نفلی نیک کام کرنے میں تو بہت جلدی کرے اور واجبات کے حقوق ادا کرنے میں سستی سے کام لے۔
حضرت ابومحمد مرتعش رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :میں نے کئی حج ننگے پاؤں اور پید ل سفر کر کے کئے ۔ ایک دن رات کے وقت میری والدہ نے مجھ سے کہا کہ ہاجرہ کو پانی پلا دو، تو مجھے یہ کام بہت بھاری لگا، اس سے میں نے جان لیا کہ پیدل حج کرنے پر میں نے اپنے نفس کی جو بات مانی اس میں میرے نفس کی لذت کا عمل دخل تھا کیونکہ اگر میرا نفس ختم ہو چکا ہوتا تو (والدہ کی اطاعت کا) وہ کام مجھے بھاری محسوس نہ ہوتا جو شریعت کا حق تھا۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۵ / ۴۳۱، ملخصاً)