ترجمہ: کنزالایمان
فرمائے گا یونہی تیرے پاس ہماری آیتیں آئی تھیں تو نے انہیں بھلا دیا اور ایسے ہی آج تیری کوئی خبرنہ لے گا۔
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ فرمائے گا: اسی طرح ہماری آیتیں تیرے پاس آئی تھیں تو تو نے انہیں بھلا دیا اور آج اسی طرح تجھے چھوڑ دیا جائے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ: اللہ فرمائے گا۔}اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ
ارشاد فرمائے گا کہ دنیا میں تیرے پاس میری نشانیاں آئیں لیکن
تو ان پر ایمان نہ لایا اور تونے انہیں پسِ پشت ڈال کران سے منہ پھیرلیا،
اسی طرح آج ہم تجھے آگ میں ڈال کر چھوڑ دیں گے اور تیرا حال پوچھنے
والاکوئی نہ ہوگا۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۶، ۳ / ۲۶۸)
دونوں جہاں
میں گناہ اور نیکی کانتیجہ:
اس سے معلوم ہوا کہ جیسے گناہ کا عذاب دنیا و آخرت میں پڑتا ہے یونہی نیکی
کا فائدہ دونوں جہان میں ملتا ہے ۔ جو مسلمان پانچوں نمازیں
پابندی سے جماعت کے ساتھ ادا کرے اسے رزق میں برکت ، قبر میں
فراخی نصیب ہوگی اور پل صراط پر آسانی سے گزرے گا اور جو جماعت کا تارک ہو
گا اس کی کمائی میں برکت نہ ہوگی، چہرے پر صالحین کے آثار نہ ہوں گے
، لوگوں کے دلوں میں اس سے نفرت ہوگی، پیاس و بھوک میں
جان کنی اور قبر کی تنگی میں مبتلا ہوگا اور ا س کا حساب بھی سخت
ہوگا۔
سورت کا تعارف
سورۂ طٰہٰ
کا تعارف
مقامِ نزول:
سورۂ طٰہٰ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔( خازن، تفسیر سورۃ
طہ، ۳ / ۲۴۸)
رکوع اور آیات کی تعداد:
اس میں 8رکوع اور 135آیتیں ہیں ۔
’’ طٰہٰ‘‘نام رکھنے کی
وجہ :
طٰہٰ، نبی کریم صَلَّیاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مبارک ناموں میں سے ایک نام ہے، اور ا س سورت کی ابتداء میں آپ صَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس نام
سے نداء کی گئی اس مناسبت سے اس سورت کا نام ’’طٰہٰ‘‘ رکھا گیا ہے۔
سورۂ طٰہٰ
کے فضائل:
(1) …حضرت معقل بن یسار رَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت
ہے، حضور پُر نور صَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد
فرمایا ’’مجھے سورۂ بقرہ ذکر سے عطا کی گئی ہے
، سورۂ طٰہٰ اور سورۂ والطور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تختیوں سے عطا کی گئی ہیں ، سورۂ فاتحہ اور سورہ ٔبقرہ
کی آخری آیتیں عرش کے نیچے موجود خزانوں
سے عطا کی گئی ہیں اور مُفَصَّل (سورتیں ) اضافی دی گئی ہیں ۔(معجم الکبیر، باب المیم، ابو الملیح بن اسامۃ الہذلی عن معقل بن یسار، ۲۰ / ۲۲۵، الحدیث: ۵۲۵)
(2) … حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت
ہے، رسولُ اللہ صَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد
فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ نے سورۂ طٰہٰ اور سورۂ یٰس کے ساتھ حضرت
آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کی تخلیق سے ایک ہزار سال پہلے کلام فرمایا اور جب فرشتوں نے قرآن سنا تو کہا: اُس امت کو مبارک ہو جس پر
یہ کلام نازل ہو گا، اُن سینوں کو مبارک
ہو جن میں یہ کلام محفوظ ہو گا اور اُن
زبانوں کو مبارک ہو جو یہ کلام پڑھیں گی۔(شعب الایمان،
التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی فضائل السور والآیات، ذکر سورۃ بنی
اسرائیل والکہف ۔۔۔ الخ، ۲ / ۴۷۶، الحدیث: ۲۴۵۰)
(3) …حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْہُ اسلام
قبول کرنے سے پہلے اسی سورت کی ابتدائی آیات پڑھ کر پکار اٹھے کہ یہ کس قدر حسین
اور عظیم کلام ہے اور اس کے بعد آپ نے اسلام قبول کر لیا۔(الروض الانف، ذکر اسلام عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ،
۲ / ۱۲۲-۱۲۳)
مضامین
سورۂ طٰہٰ
کے مضامین:
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں دین کے عقائد جیسے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور قدرت
، اس کے علاوہ نبوت، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جانے اور اعمال کی جزاء و سزا
ملنے وغیرہ کو مختلف دلائل سے ثابت کیا گیا ہے اور اس سورت میں یہ چیزیں بیان کی گئی ہیں :
(1) …قرآنِ پاک ا س لئے نازل نہیں کیا
گیا کہ اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مشقت میں پڑ جائیں بلکہ آپ
صَلَّیاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذمہ داری صرف قرآن پاک کے ذریعے نصیحت کرنا، اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچا دینا اور خود کو زیادہ مشقت میں ڈالے بغیر عبادت کرنا ہے۔
(2) …حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور فرعون
کا واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا اور اس واقعے میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بچپن میں صندوق میں بند کر کے دریا میں ڈالے جانے، حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کو جابر وسرکش فرعون کے پاس بھیجنے اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے بارے
میں اس سے بحث کرنے ،جادوگروں کے ساتھ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مقابلہ
ہونے، حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ کی تائید اور مدد
ملنے، جادو گروں کے ایمان لانے، حضرت
موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کا دریا میں راستے بنانے
والا معجزہ ظاہر ہونے، بنی اسرائیل کے دریا پار کرنے، فرعون اور ا س کے لشکر کے
ہلاک ہونے، بنی اسرائیل کا اللہ تعالیٰ کی کثیر نعمتوں کی ناشکری کرنے، سامری کا سونے سے ایک بچھڑا بنا
کر بنی اسرائیل کو گمراہ کرنے اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اپنے
بھائی حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر اظہار
ِغضب کرنے وغیرہ کا ذکر ہے ۔
(3) …جو قرآن سے منہ پھیرے ،اس پر ایمان نہ لائے اور اس
کی ہدایتوں سے فائدہ نہ اٹھائے ا س کے لئے
جہنم کی سزا کا بیان ہے۔
(4)…قیامت کے دن کی ہولناکیاں اور اس دن مجرموں کے احوال بیان کئے گئے ہیں ۔
(5) …حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ابلیس
کا واقعہ بیان کیا گیا۔
(6) … اللہ تعالیٰ کی
ہدایت سے رو گردانی کرنے والے کے انجام کا ذکر ہے۔
(7) …نبی کریم صَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کفار کی اَذِیَّتوں پر صبر کرنے ، اللہ تعالیٰ
کی عبادت پر قائم رہنے اور گھر والوں کونماز کا حکم دینے کی تلقین کی گئی ہے۔
(8) …فرمائشی معجزات طلب کرنے والے کفار کا رد کیاگیا
ہے۔
مناسبت
سورۂ مریم
کے ساتھ مناسبت:
سورہ طٰہٰ کی اپنے سے ماقبل سورت ’’مریم‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ
سورۂ مریم میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے کئی انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے
واقعات وحالات بیان کیے جن میں سے بعض کے
واقعات وحالات تفصیل کے ساتھ بیان کیے گئے جیسے حضرت
زکریا ،حضرت یحیٰ،حضرت عیسیٰ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام ، وغیرہا اور بعض کے مختصراًبیان کیے گئے جیسا کہ حضرت موسیٰ ،حضرت
ادریس عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، وغیرہا
اور کچھ کی طرف اِجمالاً اشارہ کر دیا گیا۔ اب اس سورت میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کاقصہ
تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوکس طرح
نبوت سے سرفراز فرمایا گیا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کس طرح
کے معجزات عطاکیے گئے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کس طرح
ظالم بادشاہ کوحق کی دعوت دی اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہی کی دعا
سے آپ کے بھائی کونبوت سے نوازا گیا۔( تناسق الدرر،
سورۃ طہ، ص ۱۰۲، ملخصًا)