Home ≫ ur ≫ Surah Taha ≫ ayat 18 ≫ Translation ≫ Tafsir
قَالَ هِیَ عَصَایَۚ-اَتَوَكَّؤُا عَلَیْهَا وَ اَهُشُّ بِهَا عَلٰى غَنَمِیْ وَ لِیَ فِیْهَا مَاٰرِبُ اُخْرٰى(18)
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ هِیَ عَصَایَ:عرض کی: یہ میرا عصا ہے۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی: یہ میرا عصا ہے ، جب تھک جاتا ہوں تو اس پر ٹیک لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں کے لیے خشک درختوں سے پتے جھاڑتا ہوں اور میری کئی ضروریات میں بھی یہ میرے کام آتا ہے جیسے اس کے ذریعے توشہ اور پانی اٹھانا ، مُوذی جانوروں کو دفع کرنا اور دشمنوں سے لڑائی میں کام لینا وغیرہ ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اپنے عصا کے ان فوائد کو بیان کرنا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے شکر کے طور پر تھا۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۲۵۱، مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۶۸۸، ملتقطًا)
عصا رکھنے کے فوائد:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اپنے پاس عصا رکھنا انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے اور اس سے کئی فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔ حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ عصا رکھنے میں چھ فضیلتیں ہیں ۔ (1) یہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے ، (2)صُلحاکی زینت ہے، (3) دشمنوں کے خلاف ہتھیار ہے ، (4)کمزورں کا مددگار ہے ، (5)منافقین کے لیے پریشانی کاباعث ہے ، (6)عبادت میں زیادتی کاباعث ہے۔( قرطبی، طہ، تحت الآیۃ: ۱۸، ۶ / ۸۹، الجزء الحادی عشر)
عصا کے ساتھ جنت میں چہل قدمی:
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی عصا مبارک استعمال فرمایا کرتے تھے ،اسی سلسلے میں ایک بہت پیاری حکایت ملاحظہ ہو، چنانچہ جب حضرت عبد اللہ بن انیس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے خالد بن سفیان ہزلی کو قتل کر دیا اور اس کا سر کاٹ کر مدینہ منورہ لائے اور تاجدارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قدموں میں ڈال دیا تو حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عبد اللہ بن انیس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی بہادری اور جان بازی سے خوش ہو کر انہیں اپنا عصا عطا فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ تم اسی عصا کو ہاتھ میں لے کر جنت میں چہل قدمی کرو گے۔ انہوں نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، قیامت کے دن یہ مبارک عصا میرے پاس نشانی کے طور پر رہے گا۔ چنانچہ انتقال کے وقت انہوں نے یہ وصیت فرمائی کہ اس عصا کو میرے کفن میں رکھ دیا جائے۔( زرقانی علی المواہب، کتاب المغازی، سریۃ عبد اللہ بن انیس، ۲ / ۴۷۳-۴۷۴ ملخصًا)