banner image

Home ur Surah Taha ayat 59 Translation Tafsir

قَالَ مَوْعِدُكُمْ یَوْمُ الزِّیْنَةِ وَ اَنْ یُّحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى(59)

ترجمہ: کنزالایمان موسیٰ نے کہا تمہارا وعدہ میلے کا دن ہے اور یہ کہ لوگ دن چڑھے جمع کیے جائیں ۔ ترجمہ: کنزالعرفان موسیٰ نے فرمایا: تمہارا وعدہ میلے کا دن ہے اور یہ کہ لوگ دن چڑھے جمع کرلئے جائیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ:موسیٰ نے فرمایا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرعون کو جواب دیتے ہوئے فرمایا: تمہارا وعدہ میلے کا دن ہے اور اس دن یہ بھی ہونا چاہئے کہ لوگ دن چڑھے جمع کرلئے جائیں  تاکہ خوب روشنی پھیل جائے اور دیکھنے والے اطمینان کے ساتھ دیکھ سکیں  اور انہیں  ہر چیز صاف صاف نظر آئے ۔ اس آیت میں  جس میلے کا ذکر ہوا اس سے فرعونیوں  کا وہ میلہ مراد ہے جو ان کی عید تھی اور اس میں  وہ بہت سج سنور کر جمع ہوتے تھے ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ وہ دن عاشوراء یعنی دسویں  محرم کا تھا۔ اس سال یہ تاریخ ہفتے کے دن واقع ہوئی تھی اور اس دن کو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس لئے معین فرمایا کہ یہ دن ان کی انتہائی شوکت کا دن تھا اور اسے مقرر کرنے میں  اپنی قوت کے کمال کا اظہار ہے، نیز اس میں  یہ بھی حکمت تھی کہ حق کا ظہور اور باطل کی رسوائی کے لئے ایسا ہی وقت مناسب ہے جب کہ اَطراف و جوانب کے تمام لوگ اکھٹے ہوں ۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۵۹، ۳ / ۲۵۶-۲۵۷، مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۵۹، ص۶۹۴، جمل، طہ، تحت الآیۃ: ۵۹، ۵ / ۸۰، ملتقطاً)

کفار کے میلے میں  جانے کا شرعی حکم:

            اس سے معلوم ہوا کہ شرعی ضرورت کے وقت مسلمان کو کفا رکے میلے میں  جانا جائز ہے جیسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مقابلہ کے لئے کفار کے میلہ میں  گئے اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بت شکنی کے لئے بت خانہ میں  گئے۔ اور شرعی ضرورت کے علاوہ تجارت یاکسی اور غرض سے جانے کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ میلہ کفار کا مذہبی ہے جس میں  جمع ہوکر اعلانِ کفر اور شرکیہ رسمیں  ادا کریں  تو تجارت کی غرض سے بھی جانا ناجائز ومکروہِ تحریمی ہے، اور ہر مکروہِ تحریمی صغیرہ، اور ہر صغیرہ اِصرار سے کبیرہ گناہ بن جاتا ہے۔ اور اگر وہ مجمع کفار کا مذہبی نہیں  بلکہ صرف لہوولعب کامیلہ ہے تو محض تجارت کی غرض سے جانا فی نفسہٖ ناجائز وممنوع نہیں  جبکہ یہ کسی گناہ کی طرف نہ لے جاتا ہو۔ پھر بھی کراہت سے خالی نہیں  کہ وہ لوگ ہروقت مَعَاذَ اللہ لعنت اترنے کامحل ہیں  اس لئے اُن سے دوری ہی بہتر ہے۔۔۔نیز یہ جواز بھی اُسی صورت میں  ہے کہ اسے وہاں  جانے میں  کسی معصیت کاارتکاب نہ کرنا پڑے مثلاً جلسہ ناچ رنگ کا ہو اور اسے اس جلسے سے دور اور لاتعلق علاقے میں  جگہ نہ ہو تو یہ جانا معصیت کو مستلزم ہوگا اور ہر وہ چیز جو معصیت کومستلزم ہووہ معصیت ہوتی ہے اور یہ جانا محض تجارت کی غرض سے ہو نہ کہ تماشا دیکھنے کی نیت سے کیونکہ اس نیت سے جانا مطلقاً ممنوع ہے اگرچہ وہ مجمع غیرمذہبی ہو۔( فتاوی رضویہ، ۲۳ / ۵۲۳-۵۲۶،ملخصاً)