Home ≫ ur ≫ Surah Yasin ≫ ayat 2 ≫ Translation ≫ Tafsir
یٰسٓ(1)وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِ(2)اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ(3)عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍﭤ(4)
تفسیر: صراط الجنان
{یٰسٓ} یہ حروفِ مُقَطَّعات میں سے ایک حرف ہے،اس کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ،نیزاس کے بارے مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَسماءِ مبارکہ میں سے ایک اسم ہے۔(جلالین مع صاوی، یس، تحت الآیۃ: ۱، ۵ / ۱۷۰۵)
’’یٰسین ‘‘ نام رکھنے کا شرعی حکم :
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ’’یٰسین ‘‘ نام رکھنے کا جو شرعی حکم بیان فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی کا یٰسین ‘‘ اورطٰہٰ نام رکھنا منع ہے کیونکہ بقولِ بعض علماء ممکن ہے کہ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے ایسے نام ہیں جن کے معنی معلوم نہیں ، کیاعجب کہ ان کے وہ معنی ہوں جوغیر ِخدا پر صادق نہ آسکیں ، اس لئے ان سے بچنا لازم ہے اور اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے بقول یہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ایسے نام ہیں جن کے معنی سے واقف نہیں ، ہوسکتاہے ان کاکوئی ایسامعنی ہو جو حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے لئے خاص ہو اور آپ کے سواکسی دوسرے کے لئے اس کا استعمال درست نہ ہو۔ اِن ناموں کی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی بیان کردہ رائے زیادہ مناسب ہے کیونکہ ان ناموں کا حضورِاقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے لئے مُقَدّس نام کے طور پر ہونا زیادہ ظاہر اور مشہورہے۔( فتاوی رضویہ، رسالہ: النور والضیاء فی احکام بعض الاسماء، ۲۴ / ۶۸۰-۶۸۱،ملخصاً)
نوٹ:جن حضرات کا نام ’’یٰسین‘‘ ہے وہ خود کو’’ غلام یٰسین‘‘ لکھیں اور بتائیں اور دوسروں کو چاہئے کہ اسے ’’غلام یٰسین‘‘ کہہ کر بلائیں ۔
{وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِ: حکمت والے قرآن کی قسم۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ کافروں نے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا تھا کہ ’’آپ رسول نہیں ہیں اور نہ ہی اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف کوئی رسول بھیجا ہے۔‘‘ان کے اس قول کا یہاں اللہ تعالیٰ نے رد فرمایا اور قرآنِ مجید کی قسم ارشاد فرما کر اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا’’حکمت والے قرآن کی قسم ! بیشک آپ ان ہستیوں میں سے ہیں جنہیں رسالت کا منصب عطا کیا گیا ہے اور بیشک آپ ایسے سیدھے راستے پر ہیں جو منزلِ مقصود تک پہنچانے والا ہے ۔یہ راستہ تو حید اور ہدایت کا راستہ ہے اور تمام انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اسی راستے پر رہے ہیں۔(روح البیان، یس، تحت الآیۃ: ۲-۴، ۷ / ۳۶۶، جلالین، یس، تحت الآیۃ: ۲-۴، ص۳۶۸، ملتقطاً)
سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شریعت سب سے زیادہ قوی اور مُعتَدل ہے:
یاد رہے کہ تمام انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام صراطِ مستقیم پر ہی ہیں اور جب یہ ارشاد فرما دیا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رسولوں میں سے ہیں تواسی کے ضمن میں یہ بھی معلوم ہو گیا تھا کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ صراطِ مستقیم پر بھی ہیں ، البتہ یہاں حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں صراحت کے ساتھ صراطِ مستقیم پر ہونے کی خبر دینے سے معلوم ہوا کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شریعت سب سے زیادہ قوی اور سب سے زیادہ معتدل ہے۔( روح البیان، یس، تحت الآیۃ: ۴، ۷ / ۳۶۷، ابو سعود، یس، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۳۷۶، ملتقطاً)
حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور صراطِ مستقیم:
حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خود بھی صراطِ مستقیم پر ہیں جیساکہ یہاں اللہ تعالیٰ نے صراحت کے ساتھ بیان فرمایا اور آپ لوگوں کو صراطِ مستقیم کی دعوت بھی دیتے ہیں ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ اِنَّكَ لَتَدْعُوْهُمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ‘‘(مومنون:۷۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک تم انہیں سیدھی راہ کی طرف بلاتے ہو۔
اور صراطِ مستقیم کی طرف رہنمائی بھی کرتے ہیں ، جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ اِنَّكَ لَتَهْدِیْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ‘‘(شوریٰ:۵۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک تم ضرور سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتے ہو۔
اور آپ کے ذریعے اللہ تعالیٰ صراطِ مستقیم کی ہدایت بھی دیتا ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:
’’یَهْدِیْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَ یَهْدِیْهِمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ‘‘(مائدہ:۱۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللہ اس کے ذریعے اسے سلامتی کے راستوں کی ہدایت دیتا ہے جو اللہ کی مرضی کا تابع ہوجائے اور انہیں اپنے حکم سے تاریکیوں سے روشنی کی طرف لے جاتا ہے اور انہیں سیدھی راہ کی طرف ہدایت دیتا ہے۔
اوراس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہاں ’’بِهٖ‘‘ کی ضمیر سے سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ مراد ہیں ۔( البحر المحیط، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳ / ۴۶۳)
سورہِ یٰسٓ کی آیت نمبر2تا 4سے حاصل ہونے والی معلومات:
ان آیات سے تین باتیں مزید معلوم ہوئیں :
(1)…اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مقام اتنا بلند ہے کہ کافروں کی طرف سے آپ پر ہونے والے اعتراضات کا جواب اللہ تعالیٰ خود ارشاد فرماتا ہے۔
(2)…اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عظمت کے ایسے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی رسالت پر اپنے مُقَدّس کلام قرآنِ مجید کی قسم ارشاد فرمائی ہے اور یہ خصوصیت آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علاوہ اور کسی نبی عَلَیْہِ السَّلَام کو حاصل نہ ہوئی۔
(3)…حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سِیادت اور سرداری کا وہ رتبہ عطا ہو اہے جو کسی دوسرے رسول اور نبی عَلَیْہِ السَّلَام کو عطا نہیں ہوا۔