Home ≫ ur ≫ Surah Yasin ≫ ayat 27 ≫ Translation ≫ Tafsir
قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَؕ-قَالَ یٰلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَ(26)بِمَا غَفَرَ لِیْ رَبِّیْ وَ جَعَلَنِیْ مِنَ الْمُكْرَمِیْنَ(27)
تفسیر: صراط الجنان
{قِیْلَ: (اس سے) فرمایا گیا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب لوگوں نے اُس مخلص مُبَلِّغ کو شہید کر دیا تو عزت و اِکرام کے طور پر مُبَلِّغ سے فرمایا گیا: توجنت میں داخل ہوجا۔جب وہ جنت میں داخل ہوئے اور وہاں کی نعمتیں دیکھیں تو انہوں نے یہ تمنا کی کہ ان کی قوم کو معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بخش دیا ہے اور میری بہت عزت افزائی فرمائی ہے۔
دشمنوں پر رحم کرنا اور ان کی خیر خواہی کرنا بزرگانِ دین کا طریقہ ہے :
اس آیت سے معلوم ہو اکہ اُس مخلص مومن اور خیر خواہ مُبَلِّغ نے زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی اپنی قوم کا بھلا چاہا اور ان کے ایمان لانے کی تمنا کی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء کا طریقہ یہ ہے کہ وہ غصہ پی جاتے ہیں اور اپنے دشمنوں پر بھی رحم فرماتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ مومن اور خصوصاً مُبَلِّغ کی شان کے لائق یہ ہے کہ وہ لوگوں کی دشمنی اور مخالفت کی طرف توجہ نہ کرے بلکہ ہر حال میں ان کا خیر خواہ رہے اور ان کی اصلاح کی دعا کرتا رہے۔ اسی مناسبت سے یہاں دشمنوں پر رحم اور ان کی خیر خواہی کرنے سے متعلق تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت سے 3واقعات اور خود کو تکلیف پہنچانے والوں کی خیرخواہی کرنے سے متعلق دیگر بزرگانِ دین کے دوواقعات ملاحظہ ہوں ،
(1)… ایک مرتبہ امُّ المومنین حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے حضورِاقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا : یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا جنگ ِاُحد کے دن سے بھی زیادہ سخت کوئی دن آپ پر گزرا ہے؟ ارشاد فرمایا’’ ہاں ، اے عائشہ! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا، وہ دن میرے لئے جنگ ِاُحد کے دن سے بھی زیادہ سخت تھا جب میں نے طائف میں وہاں کے ایک سردار ’’ابنِ عبد یالیل بن عبد کلال‘‘ کو اسلام کی دعوت دی۔ اس نے دعوتِ اسلام کو حقارت کے ساتھ ٹھکرا دیا (اور اہلِ طائف نے مجھ پر پتھراؤ کیا) میں اس رنج و غم میں سرجھکائے چلتا رہایہاں تک کہ مقام ’’قَرنُ الثّعالب‘‘ میں پہنچ کر میرے ہوش و حواس بجا ہوئے ۔وہاں پہنچ کر جب میں نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بدلی مجھ پر سایہ کئے ہوئے ہے، اس بادل میں سے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے مجھے آواز دی اور کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کا قول اور ان کا جواب سن لیا اور اب آپ کی خدمت میں پہاڑوں کا فرشتہ حاضر ہے ۔ تاکہ وہ آپ کے حکم کی تعمیل کرے۔ حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بیان ہے کہ پہاڑوں کا فرشتہ مجھے سلام کرکے عرض کرنے لگا : یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کا قول اور انہوں نے آپ کو جو جواب دیا ہے وہ سب کچھ سن لیا ہے اور مجھ کو آپ کی خدمت میں بھیجا ہے تا کہ آپ مجھے جو چاہیں حکم دیں اور میں آپ کا حکم بجا لاؤں ۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں’’اَخْشَبَیْن‘‘ (ابو قُبَیس اورقُعَیْقِعان نام کے) دونوں پہاڑوں کو ان کفار پر اُلٹ دوں تو میں اُلٹ دیتاہوں ۔ یہ سن کر حضور رحمت ِعالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جواب دیا: (نہیں ) بلکہ میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں سے اپنے ایسے بندوں کو پیدا فرمائے گا جو صرف اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کریں گے اور شرک نہیں کریں گے۔( بخاری، کتاب بدء الخلق، باب اذا قال احدکم: آمین والملائکۃ فی السمائ۔۔۔ الخ، ۲ / ۳۸۶، الحدیث: ۳۲۳۱)
(2)…حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :جس وقت نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مُقَدّس دانت شہید ہوئے ،آپ کا چہرہ مبارک زخمی ہوا اور خود آپ کے سر مبارک پر ٹوٹ گیا اس وقت میں وہاں حاضر تھااور میں انہیں بھی جانتا ہوں جنہوں نے آپ کے چہرے سے خون دھویا اور جنہوں نے چہرے پر پانی ڈالا اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ کے زخم پر کیا چیز ڈالی گئی جس سے خون رک گیا۔ اللہ تعالیٰ کے رسول محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شہزادی حضرت فاطمہ زہرا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا چہرے سے خون دھو رہی تھیں اور حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ان کے پاس اپنی ڈھال میں پانی بھر بھر کر لا رہے تھے،جب حضرت فاطمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے اپنے والد گرامی کے چہرے سے خون دھو لیا تو کھجور کی چٹائی کا ایک ٹکڑا جلایا اور اس کی راکھ زخم پر رکھ دی یہاں تک کہ خون بہنا رک گیا، پھر اس وقت سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اس قوم پر اللہ تعالیٰ کا غضب شدید ہوا جس نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چہرے کو زخمی کیا ،پھر کچھ دیر ٹھہرنے کے بعد دعا فرمائی : اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ مجھے نہیں جانتے ۔( معجم الکبیر، زہرۃ بن عمرو بن معبد التیمی عن ابی حزام، ۶ / ۱۶۲، الحدیث: ۵۸۶۲)
(3)… حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : (غزوہِ طائف کے دوران کچھ) لوگوں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ثقیف کے تیروں نے ہمیں جلا ڈالا ہے ،آپ ان کے خلاف دعا فرما دیں تو رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے (ان کے خلاف دعا کرنے کی بجائے ان کے حق میں یہ) دعا فرمائی: اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ثقیف کو ہدایت دیدے۔(ترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب فی ثقیف وبنی حنیفۃ، ۵ / ۴۹۲، الحدیث: ۳۹۶۸)
(4)… حضرت ابراہیم بن ادھم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ایک دن کسی صحرا کی طرف تشریف لے گئے تو وہاں آپ کو ایک سپاہی ملا، اس نے کہا :تم غلام ہو؟ آپ نے فرمایا :ہاں ۔ اس نے کہا: بستی کدھر ہے؟ آپ نے قبرستان کی طرف اشارہ فرما دیا۔ سپاہی نے کہا میں آبادی کے بارے میں پوچھ رہا ہوں ۔ آپ نے فرمایا: وہ تو قبرستان ہے ، یہ سن کر اسے غصہ آیا اور اس نے ایک ڈنڈا آپ کے سر میں دے مارا اور آپ کو زخمی کرکے شہر کی طرف لے آیا ،آپ کے ساتھی راستے میں ملے تو پوچھا :یہ کیا ہوا؟ سپاہی نے سب کچھ بیان کر دیا کہ انہوں نے یہ بات کہی ہے۔ لوگوں نے کہا: یہ تو حضرت ابراہیم بن ادھم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ہیں ۔ یہ سن کر سپاہی فوراًگھوڑے سے اترا اور آپ کے ہاتھوں اور پاؤں کو چومنے لگا، پھر آپ سے پوچھا گیا : آپ نے یہ کیوں کہا کہ میں غلام ہوں ؟ فرمایا: اس نے مجھ سے یہ نہیں پوچھا کہ تو کس کا بندہ ہے بلکہ صرف یہ کہا کہ تو بندہ ہے؟ تو میں نے کہا: ہاں ، کیو نکہ میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں اور جب اس نے میرے سر میں مارا تو میں نے اللہ تعالیٰ سے اس کے لئے جنت کا سوال کیا۔ عرض کی گئی: جب اس نے آپ پر ظلم کیا تو آپ نے اس کے لئے دعا کیوں مانگی؟ فر مایا: مجھے معلوم تھا کہ اس مصیبت پر مجھے (صبر کرنے کا) ثواب ملے گا تو میں نے مناسب نہ سمجھا کہ مجھے تو اچھا اجر ملے اور اُسے عذاب ہو (جو میرے لئے ثواب پانے کا ذریعہ بنا ہے)۔( احیاء علوم الدین، کتاب ریاضۃ النفس۔۔۔ الخ، بیان علامات حسن الخلق، ۳ / ۸۷)
(5)…ایک شخص نے حضرت احنف بن قیس رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو گالی دی تو آپ نے اسے کوئی جواب نہ دیا،وہ گالیاں دیتے ہوئے آپ کے پیچھے چلتا رہا،جب آپ اپنے محلے کے قریب پہنچے تو رک گئے اور فرمایا:اگر تمہارے دل میں کوئی اور بات ہے تو وہ بھی یہیں کہہ دو تاکہ محلے کے ناسمجھ لوگ تمہاری بات سن کر تمہیں اَذِیَّت نہ پہنچائیں ۔( احیاء علوم الدین، کتاب ریاضۃ النفس۔۔۔ الخ، بیان علامات حسن الخلق، ۳ / ۸۸)
اللہ تعالیٰ ان بزرگانِ دین کی پاکیزہ سیرت کا صدقہ ہمیں بھی اپنی مخالفت کرنے اور تکلیف پہنچانے والوں کی خیر خواہی کرنے اور ان کے حق میں دعائے خیر کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
دشمنی ،ظلم اور مخالفت کرنے والوں سے متعلق اسلام کی حسین تعلیمات:
جن لوگوں کے ساتھ دشمنی اور مخالفت کی جاتی ہے اور جن پر ظلم و ستم کیا جاتا ہے انہیں دشمنوں ،مخالفوں اور ظالموں کے بارے میں دین ِاسلام نے کیسی عظیم اور حسین تعلیمات دی ہیں اس کی جھلک ملاحظہ ہو،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰهِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِ٘-وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤى اَلَّا تَعْدِلُوْاؕ-اِعْدِلُوْا- هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى٘-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ‘‘(مائدہ:۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! انصاف کے ساتھ گواہی دیتے ہوئے اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ اور تمہیں کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ تم انصاف نہ کرو (بلکہ) انصاف کرو، یہ پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ تمہارے تمام اعمال سے خبردار ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ لَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَ لَا السَّیِّئَةُؕ-اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَكَ وَ بَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ(۳۴)وَ مَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْاۚ-وَ مَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ‘‘(حم السجدہ:۳۴،۳۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اچھائی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی۔ برائی کو بھلائی کے ساتھ دور کردو تو تمہارے اور جس شخص کے درمیان دشمنی ہوگی تو اس وقت وہ ایسا ہوجائے گا کہ جیسے وہ گہرا دوست ہے۔ اور یہ دولت صبر کرنے والوں کو ہی ملتی ہے اور یہ دولت بڑے نصیب والے کو ہی ملتی ہے۔
اور حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس میں تین چیزیں ہوں گی اللہ تعالیٰ اس کا آسان حساب لے گا اور اسے جنت میں داخل فرمائے گا ۔میں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ تین چیزیں کون سی ہیں ؟ارشاد فرمایا’’جو تم سے رشتہ توڑے تم اس سے رشتہ جوڑو،جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کرو اور جو تم پر ظلم کرے تم اسے معاف کر دو۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۲۶۳، الحدیث: ۹۰۹)
اورحضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جو شخص تم سے تعلق توڑے تم اس کے ساتھ تعلق جوڑو اور جو تم سے برا سلوک کرے تم اس سے اچھا سلوک کرو اور حق بات کہو اگرچہ وہ تمہارے خلاف ہو۔(کنزالعمال،کتاب الاخلاق،قسم الاقوال،صلۃ الرحم والترغیب فیہا۔۔۔الخ،۲ / ۱۴۵،الحدیث: ۶۹۲۶، الجزء الثالث)
دین ِاسلام کی ان عظیم الشّان تعلیمات کو دیکھ کر ہر انصاف پسند آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ جو دین دشمنی، مخالفت اور ظلم کرنے والوں کے بارے ایسی بہترین تعلیم دے رہا ہے اس سے بڑاامن و سلامتی کا داعی دین اور کون ہو سکتا ہے۔