Home ≫ ur ≫ Surah Yasin ≫ ayat 48 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(48)مَا یَنْظُرُوْنَ اِلَّا صَیْحَةً وَّاحِدَةً تَاْخُذُهُمْ وَ هُمْ یَخِصِّمُوْنَ(49)فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ تَوْصِیَةً وَّ لَاۤ اِلٰۤى اَهْلِهِمْ یَرْجِعُوْنَ(50)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَقُوْلُوْنَ: اور کہتے ہیں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ کافروں نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے کہا :تم ہمیں یہ کہہ رہے ہو کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور قیامت قائم ہو گی ،اگرتم سچے ہو تو بتاؤ یہ وعدہ کب آئے گا؟ ان لوگوں کے جواب میں ارشاد فرمایا گیا کہ ان کے بار بار پوچھنے سے یہی نظر آ رہا ہے کہ وہ صرف صُور کے پہلے نَفخہ کی اس چیخ کا انتظار کر رہے ہیں جسے حضرت اسرافیل عَلَیْہِ السَّلَام پھونکیں گے اور وہ چیخ اس حال میں ان تک پہنچے گی کہ وہ دنیا کے جھگڑوں جیسے خرید و فروخت میں ، کھانے پینے میں ، بازاروں اور مجلسوں میں اور دنیا کے کاموں میں پھنسے ہوئے ہوں گے ۔ حدیث شریف میں ہے، نبی کر یم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ خریدار اور بیچنے والے کے درمیان کپڑا پھیلا ہو گا، نہ سودا تمام ہونے پائے گا ، نہ کپڑا لپٹ سکے گا کہ قیامت قائم ہو جائے گی ۔یعنی لوگ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوں گے اور وہ کام ویسے ہی ناتمام رہ جائیں گے ،نہ انہیں خود پورا کر سکیں گے ، نہ کسی دوسرے سے پورا کرنے کو کہہ سکیں گے اور جو گھر سے باہر گئے ہیں وہ واپس نہ آ سکیں گے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ اس وقت جو لوگ اپنے گھر والوں کے درمیان ہوں گے وہ وصیت نہ کرسکیں گے اورجو لوگ گھروں سے باہر ہوں گے وہ اپنے گھر پلٹ کر نہ جاسکیں گے بلکہ جہاں چیخ سنیں گے وہیں مر جائیں گے اور قیامت انہیں کچھ کرنے کی فرصت اور مہلت نہ دے گی ۔( خازن، یس، تحت الآیۃ: ۴۸-۵۰، ۴ / ۹، مدارک، یس، تحت الآیۃ: ۴۸-۵۰، ص۹۹۰، جلالین ، یس، تحت الآیۃ: ۴۸-۵۰، ص۳۷۱، ابو سعود، یس، تحت الآیۃ: ۴۸-۵۰، ۴ / ۳۸۸-۳۸۹، ملتقطاً)
یہاں کفار مکہ کو قیامت قائم ہونے کا وقت نہیں بتایا گیاکیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے خلاف ہے اور انہیں جو جواب دیا گیا اس میں ان لوگوں کو یقینی طور پر آنے والی چیز پر تنبیہ فرمائی گئی ،اس سے معلوم ہواکہ عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان قیامت کا وقت اور ا س کی تاریخ کی تحقیق میں وقت ضائع کرنے کی بجائے قیامت کی تیاری کرے اور اپنی مختصر زندگی میں وہ کام کرے جن سے اسے قیامت کے دن کامیابی نصیب ہو لیکن افسوس!کفار کی غفلت تو اپنی جگہ مسلمانوں کی غفلت اور سُستی کا حال دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ بھی اس انتظار میں ہیں کہ قیامت قائم ہو جائے تو ہی ا س کے بارے میں کچھ سوچیں گے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ(۱) مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِّهِمْ مُّحْدَثٍ اِلَّا اسْتَمَعُوْهُ وَ هُمْ یَلْعَبُوْنَۙ(۲) لَاهِیَةً قُلُوْبُهُمْ‘‘(انبیاء:۱۔۳)
ترجمہٌ کنزُالعِرفان: لوگوں کا حساب قریب آگیا اور وہ غفلت میں منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔ جب ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے کوئی نئی نصیحت آتی ہے تو اسے کھیلتے ہوئے ہی سنتے ہیں ۔ ان کے دل کھیل میں پڑے ہوئے ہیں ۔
اور لوگوں کی غفلت کا ایک سبب بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: ’’اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُۙ(۱) حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَؕ(۲) كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَۙ(۳) ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَؕ(۴) كَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْیَقِیْنِؕ(۵) لَتَرَوُنَّ الْجَحِیْمَۙ(۶) ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَیْنَ الْیَقِیْۙنِ(۷)ثُمَّ لَتُسْــٴَـلُنَّ یَوْمَىٕذٍ عَنِ النَّعِیْمِ‘‘(تکاثر:۱۔۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: زیادہ مال جمع کرنے کی طلب نے تمہیں غافل کردیا۔ یہاں تک کہ تم نے قبروں کا منہ دیکھا۔ ہاں ہاں اب جلد جان جاؤ گے۔ پھر یقینا تم جلد جان جاؤ گے۔ یقینا اگر تم یقینی علم کے ساتھ جانتے (تو مال سے محبت نہ رکھتے)۔بیشک تم ضرور جہنم کو دیکھو گے۔ پھر بیشک تم ضرور اسے یقین کی آنکھ سے دیکھو گے۔ پھر بیشک ضرور اس دن تم سے نعمتوں کے متعلق پوچھا جائے گا۔
اور قیامت کے دن کی ہَولْناکی بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
’’یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْۚ-اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ(۱)یَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّاۤ اَرْضَعَتْ وَ تَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَ تَرَى النَّاسَ سُكٰرٰى وَ مَا هُمْ بِسُكٰرٰى وَ لٰكِنَّ عَذَابَ اللّٰهِ شَدِیْدٌ‘‘(حج:۱۔۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، بیشک قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے۔ جس دن تم اسے دیکھو گے (تو یہ حالت ہوگی کہ) ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی اور ہر حمل والی اپنا حمل ڈال دے گی اور تو لوگوں کو دیکھے گا جیسے نشے میں ہیں حالانکہ وہ نشہ میں نہیں ہوں گے لیکن ہے یہ کہ اللہ کا عذاب بڑا شدید ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
’’یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ وَ اخْشَوْا یَوْمًا لَّا یَجْزِیْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِهٖ٘-وَ لَا مَوْلُوْدٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَّالِدِهٖ شَیْــٴًـاؕ-اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاٙ-وَ لَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ‘‘(لقمان:۳۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو جس میں کوئی باپ اپنی اولاد کے کام نہ آئے گا اور نہ کوئی بچہ اپنے باپ کو کچھ نفع دینے والاہوگا۔ بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے تو دنیا کی زندگی ہرگز تمہیں دھوکا نہ دے اور ہرگز بڑا دھوکہ دینے والا تمہیں اللہ کے علم پر دھوکے میں نہ ڈالے۔
اور انسان کو تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: ’’ یٰۤاَیُّهَا الْاِنْسَانُ اِنَّكَ كَادِحٌ اِلٰى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلٰقِیْهِۚ(۶) فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِیَمِیْنِهٖۙ(۷) فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًاۙ(۸) وَّ یَنْقَلِبُ اِلٰۤى اَهْلِهٖ مَسْرُوْرًاؕ(۹) وَ اَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ وَرَآءَ ظَهْرِهٖۙ(۱۰) فَسَوْفَ یَدْعُوْا ثُبُوْرًاۙ(۱۱) وَّ یَصْلٰى سَعِیْرًاؕ(۱۲) اِنَّهٗ كَانَ فِیْۤ اَهْلِهٖ مَسْرُوْرًاؕ(۱۳) اِنَّهٗ ظَنَّ اَنْ لَّنْ یَّحُوْرَۚۛ(۱۴) بَلٰۤىۚۛ-اِنَّ رَبَّهٗ كَانَ بِهٖ بَصِیْرًا‘‘(انشقاق:۶۔۱۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے انسان! بیشک تو اپنے رب کی طرف دوڑنے والا ہے پھر اس سے ملنے والا ہے تو جسے اس کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو عنقریب اس سے آسان حساب لیا جائے گااور وہ اپنے گھر والوں کی طرف خوشی خوشی پلٹے گااور جسے اس کا نامہ اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائیگاتووہ عنقریب موت مانگے گااوروہ بھڑکتی ا ٓگ میں داخل ہوگا۔ بیشک وہ اپنے گھر میں خوش تھا، اس نے سمجھا کہ وہ واپس نہیں لوٹے گا۔ ہاں ، کیوں نہیں ! بیشک اس کا رب اسے دیکھ رہا ہے۔
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ غفلت اور سُستی سے جان چھڑا کر اپنی آخرت بہتر بنانے کی بھر پور کوشش کرے اور اپنی زندگی اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہوئے گزارے تاکہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت سے اسے کامیابی نصیب ہو۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اپنی آخرت کی فکر کرنے اور اس کے لئے خوب تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔