banner image

Home ur Surah Yasin ayat 70 Translation Tafsir

لِّیُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَیًّا وَّ یَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ(70)

ترجمہ: کنزالایمان کہ اسے ڈرائے جو زندہ ہو اور کافروں پر بات ثابت ہوجائے۔ ترجمہ: کنزالعرفان تاکہ وہ ہر ایسے شخص کوڈرائے جو زندہ ہو اور کافروں پر بات ثابت ہوجائے ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لِیُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَیًّا: تاکہ وہ ہر ایسے شخص کو ڈرائے جو زندہ ہو۔} مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ یہاں  ڈرانے والے سے مراد نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں  اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد قرآنِ مجید ہے،اورزندہ سے مراد وہ شخص ہے جو دل کا زندہ ہو اور کلام و خطاب کو سمجھتا ہے ،یہ مومن کی شان ہے ۔ اس صورت میں  آیت کا معنی یہ ہوگا: قرآنِ پاک نصیحت اور روشن قرآن ہے تا کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یا قرآن، مومن کو گناہوں  پر ہونے والے عذاب سے ڈرائیں  (تاکہ وہ گناہوں  سے باز رہے) اور کفر پر قائم رہنے والے کافروں  پر عذاب کی بات ثابت ہو جائے۔ اس میں  اشارہ ہے کہ جس دل میں  اللہ تعالیٰ کی معرفت کا نور ہو وہی دل زندہ ہوتا ہے اور اسی کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانا فائدہ مند ہوتا ہے،وہی اس ڈرانے کا اثر قبول کرتا ہے اور دنیا سے اِعراض کر کے آخرت اور اپنے پرودرگار کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔بعض مفسرین نے فرمایا کہ زندہ سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کے علم میں  ایمان لانے والا ہے کیونکہ ہمیشہ کی کامیاب زندگی تو صرف ایمان سے حاصل ہوتی ہے، یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کے علم میں  ایمان والا ہے اس کا ایمان ایسے ہے جیسے بدن کے لئے زندگی کیونکہ ایمان ابدی زندگی حاصل ہونے کا سبب ہے۔اس صورت میں  آیت کا معنی یہ ہوگا:قرآنِ پاک نصیحت اور روشن قرآن ہے تا کہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یا قرآن اسے عذاب سے ڈرائیں  جو اللہ تعالیٰ کے علم میں ایمان لانے والا ہے تاکہ وہ ایمان لے آئے اور کفر پر قائم رہنے والے کافروں  پر عذاب کی بات ثابت ہو جائے۔( تفسیرکبیر، یس، تحت الآیۃ: ۷۰، ۹ / ۳۰۵، جلالین، یس، تحت الآیۃ: ۷۰، ص۳۷۲، روح البیان، یس، تحت الآیۃ: ۷۰، ۷ / ۴۳۲، ملتقطاً)