banner image

Home ur Surah Yunus ayat 27 Translation Tafsir

يُوْنُس

Yunus

HR Background

وَ الَّذِیْنَ كَسَبُوا السَّیِّاٰتِ جَزَآءُ سَیِّئَةٍۭ بِمِثْلِهَاۙ-وَ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌؕ-مَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ عَاصِمٍۚ-كَاَنَّمَاۤ اُغْشِیَتْ وُجُوْهُهُمْ قِطَعًا مِّنَ الَّیْلِ مُظْلِمًاؕ-اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(27)

ترجمہ: کنزالایمان اور جنہوں نے برائیاں کمائیں تو برائی کا بدلہ اسی جیسا اور ان پر ذلت چڑھے گی انہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا گویا ان کے چہروں پر اندھیری رات کے ٹکڑے چڑھا دیئے ہیں وہی دوزخ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور جنہوں نے برائیاں کمائیں تو برائی کا بدلہ اسی کے برابر ہے اور ان پر ذلت چھائی ہوگی، انہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا، گویا ان کے چہروں کو اندھیری رات کے ٹکڑوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔ وہی دوزخ والے ہیں ، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ الَّذِیْنَ كَسَبُوا السَّیِّاٰتِ:اور جنہوں نے برائیوں کی کمائی کی۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے اُخروی حالات اور انعامات بیان فرمائے اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے چار اخروی اَحوال بیان فرمائے ہیں۔

(1)…جتنا گناہ ہو گا اتنی ہی سزا ملے گی۔ اس قید سے اس بات پر تَنبیہ مقصود ہے کہ نیکی اور گناہ میں فرق ہے کیونکہ نیکی کا ثواب ایک سے لے کر سات سوگنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑھایا جاتا ہے اور یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل و کرم ہے اور گناہ کی سزا اتنی ہی دی جاتی ہے جتنا گناہ ہو اور یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عدل ہے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۲۷، ۲ / ۳۱۳)

(2)… ان پر ذلت چھائی ہوگی۔ اس میں ان کی توہین اور تحقیر کی طرف اشارہ ہے۔

(3)…انہیں اللہ کے عذاب اور اس کی ناراضی سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا۔

(4)… گویا ان کے چہروں کو اندھیری رات کے ٹکڑوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔ ان کی روسیاہی کا یہ حال ہوگا خدا کی پناہ۔

قیامت کے دن بعض مسلمانوں پر بھی عذابِ الٰہی کے آثار ہوں گے:

            اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن مومن و کافر چہروں ہی سے معلوم ہو جائیں گے۔ رب عَزَّوَجَلَّفرماتا ہے

’’ یُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِیْمٰىهُمْ ‘‘ (رحمٰن:۴۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:مجرم اپنے چہروں سے پہچانے جائیں گے۔

            اور فرماتا ہے: ’’ تَبْیَضُّ   وُجُوْهٌ  وَّ  تَسْوَدُّ  وُجُوْهٌ ‘‘ (اٰل عمران:۱۰۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: کئی چہرے روشن ہوں گے اور کئی چہرے سیاہ ہوں گے۔

            البتہ کئی مسلمان بھی ایسے ہوں گے جو قیامت کے دن اپنے عذاب کی علامات لئے ہوئے ہوں گے جیسے

             پیشہ ور بھکاری کے منہ پر گوشت نہ ہوگا ،چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’آدمی سوال کرتا رہے گا، یہاں تک کہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اُس کے چہرہ پر گوشت کا ٹکڑا نہ ہوگا۔ (مسلم، کتاب الزکاۃ، باب کراہۃ المسألۃ للناس، ص۵۱۸، الحدیث: ۱۰۴(۱۰۴۰))

             بیویوں میں انصاف نہ کرنے والے کی ایک کروٹ ٹیڑھی ہوگی۔ حضرت ابوہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ا رشاد فرمایا جب کسی کے پاس دو بیویاں ہوں پھر ان میں انصاف نہ کرے تو وہ قیامت میں اس طرح آئے گا کہ اس کی ایک کروٹ ٹیڑھی ہوگی۔  (ترمذی، کتاب النکاح، باب ما جاء فی التسویۃ بین الضرائر، ۲ / ۳۷۵، الحدیث: ۱۱۴۴)

             زکوٰۃ ادا کرنے میں بخل کرنے والے پر گنجا سانپ مُسلّط ہو گا، چنانچہ حضرت ابوہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس کو اللہ تعالیٰ مال دے اور وہ اُس کی زکوٰۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن وہ مال گنجے سانپ کی صورت میں کر دیا جائے گا، جس کے سر پر دونشان ہوں گے۔ وہ سانپ اُس کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا پھر اس کی باچھیں پکڑے گا اور کہے گا میں تیرا مال ہوں ، میں تیرا خزانہ ہوں۔‘‘ اس کے بعد حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس آیت کی تلاوت کی  

’’ وَ  لَا  یَحْسَبَنَّ  الَّذِیْنَ  یَبْخَلُوْنَ  بِمَاۤ  اٰتٰىهُمُ  اللّٰهُ  مِنْ  فَضْلِهٖ  هُوَ  خَیْرًا  لَّهُمْؕ-بَلْ  هُوَ  شَرٌّ  لَّهُمْ ‘‘ (اٰل عمران:۱۸۰)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان: اور جو لوگ اس چیز میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہے وہ ہرگز اسے اپنے لئے اچھا نہ سمجھیں بلکہ یہ بخل ان کے لئے برا ہے۔(بخاری، کتاب الزکاۃ، باب اثم مانع الزکاۃ، ۱ / ۴۷۴، الحدیث: ۱۴۰۳)