Home ≫ ur ≫ Surah Yunus ≫ ayat 64 ≫ Translation ≫ Tafsir
لَهُمُ الْبُشْرٰى فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَةِؕ-لَا تَبْدِیْلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِؕ-ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُﭤ(64)
تفسیر: صراط الجنان
{لَهُمُ الْبُشْرٰى فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا:ان کے لئے دنیا کی زندگی میں خوشخبری ہے۔} اس خوش خبری سے یا تو وہ مراد ہے جو پرہیزگار ایمانداروں کو قرآنِ کریم میں جا بجادی گئی ہے یااس سے اچھے خواب مراد ہیں جو مومن دیکھتا ہے یا اس کے لئے دیکھا جاتا ہے جیسا کہ کثیر اَحادیث میں وارد ہوا ہے، اور اس کا سبب یہ ہے کہ ولی کا قلب اور اس کی روح دونوں ذکرِ الٰہی میں مستغرق رہتے ہیں تو بوقت ِخواب اس کے دل میں سوائے ذکر و معرفتِ الٰہی کے اور کچھ نہیں ہوتا، اس لئے ولی جب خواب دیکھتا ہے تو اس کا خواب حق اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے حق میں بشارت ہوتی ہے۔ بعض مفسرین نے اس بشارت سے دنیا کی نیک نامی بھی مراد لی ہے۔(مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۴۷۸، خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۶۴، ۲ / ۳۲۳، ملتقطاً) جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کیا گیا :اس شخص کے لئے کیا ارشاد فرماتے ہیں جو نیک عمل کرتا ہے اور لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں ؟ فرمایا: یہ مومن کے لئے جلد خوشخبری ہے۔(مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب اذا اثنی علی الصالح فہی بشری ولا تضرہ، ص۱۴۲۰، الحدیث: ۱۶۶ (۲۶۴۲))
علماء فرماتے ہیں کہ یہ بشارتِ عاجلہ یعنی جلد خوشخبری رضائے الٰہی اور اللہ تعالیٰ کے محبت فرمانے اور خلق کے دل میں محبت ڈال دینے کی دلیل ہے جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اس کو زمین میں مقبول کردیا جاتا ہے۔ (شرح النووی علی المسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب اذا اثنی علی الصالح فہی بشری ولا تضرہ، ۸ / ۱۸۹، الجزء السادس عشر)
حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ ملائکہ ،مومن کو اس کی موت کے وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت دیتے ہیں۔ حضرت عطا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول ہے کہ دنیا کی بشارت تو وہ ہے جو ملائکہ موت کے وقت سناتے ہیں اور آخرت کی بشارت وہ ہے جو مومن کو جان نکلنے کے بعد سنائی جاتی ہے کہ اس سے اللہ عَزَّوَجَلَّ راضی ہے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۶۴، ۲ / ۳۲۳-۳۲۴)
یہاں آیت کی مناسبت سے اولیاءِ کرام کے فضائل پر مشتمل 4 اَحادیث ملاحظہ ہوں
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’جو میرے کسی ولی سے دشمنی کرے، اس سے میں نے لڑائی کا اعلان کردیا اور میرا بندہ کسی شے سے میرا اُس قدر قرب حاصل نہیں کرتا جتنا فرائض سے کرتا ہے اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے ہمیشہ قرب حاصل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اسے محبوب بنا لیتا ہوں اور جب اس سے محبت کرنے لگتاہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ پکڑتا ہے اور اس کا پیر بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے سوال کرے، تو اسے دوں گا اور پناہ مانگے تو پناہ دوں گا۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب التواضع، ۴ / ۲۴۸، الحدیث: ۶۵۰۲)
(2)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام کو بلا کر ان سے فرماتا ہے کہ میں فلاں سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو چنانچہ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام اس سے محبت کرتے ہیں ،پھر حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام آسمان میں ندا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو تو آسمان والے بھی اس سے محبت کرتے ہیں ، پھر اس کے لیے زمین میں مقبولیت رکھ دی جاتی ہے ۔اور جب رب تعالیٰ کسی بندے سے ناراض ہوتا ہے تو حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام کو بلا کر ان سے فرماتا ہے کہ میں فلاں سے ناراض ہوں تو تم بھی اس سے ناراض ہوجائو چنانچہ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام اس سے ناراض ہوجاتے ہیں ،پھر وہ آسمان والوں میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں سے ناراض ہے تم بھی اس سے ناراض ہوجائو تو آسمان والے اس سے نفرت کرتے ہیں پھر زمین میں اس کے لیے نفرت رکھ دی جاتی ہے۔ (مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب اذا احبّ اللہ عبداً حبّبہ الی عبادہ، ص۱۴۱۷، الحدیث: ۱۵۷(۲۶۳۷))
(3)…حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو لوگ میرے جلال کی وجہ سے آپس میں محبت رکھتے ہیں ان کے لیے نور کے منبر ہوں گے، انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور شُہدا اُن پر رشک کریں گے۔ (ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الحبّ فی اللہ، ۴ / ۱۷۴، الحدیث: ۲۳۹۷)
(4)…حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کے کچھ ایسے بندے ہیں کہ وہ نہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں اور نہ شُہدا ء ۔ اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کا ایسا مرتبہ ہوگا کہ قیامت کے دن انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور شہدا اُن پر رشک کریں گے۔ لوگوں نے عرض کی، یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ارشاد فرمائیے یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا کہ ’’یہ وہ لوگ ہیں جو محض رحمتِ الٰہی کی وجہ سے آپس میں محبت رکھتے ہیں ، نہ ان کا آپس میں رشتہ ہے، نہ مال کا لینا دینا ہے۔ خدا کی قسم! ان کے چہرے نور ہیں اور وہ خود بھی نور پر ہیں۔ جب لوگ خوف میں ہوں گے ، اس وقت اِنہیں خوف نہیں ہو گااور جب دوسرے غم میں ہوں گے تویہ غمگین نہ ہوں گے۔‘‘ اور حضورپُر نور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) نے یہ آیت پڑھی۔
’’ اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ ‘‘ (یونس:۶۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:سن لو! بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔( ابوداؤد، کتاب الاجارۃ، باب فی الرہن، ۳ / ۴۰۲، الحدیث: ۳۵۲۷)
{لَا تَبْدِیْلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ:اللہ کی باتیں بدلتی نہیں۔} یعنی اللہ تعالیٰ کے وعدے غلط نہیں ہوسکتے جو اس نے اپنی کتاب میں اور اپنے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبان سے اپنے اَولیاء رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اور اپنے فرمانبردار بندوں سے فرمائے ہیں۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۶۴، ۲ / ۳۲۴)