Home ≫ ur ≫ Surah Yunus ≫ ayat 7 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا وَ رَضُوْا بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ اطْمَاَنُّوْا بِهَا وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوْنَ(7)اُولٰٓىٕكَ مَاْوٰىهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(8)
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الَّذِیْنَ:بیشک وہ لوگ۔} ان آیات میں پہلے ان لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے کہ جو حشر یعنی مرنے کے بعد اٹھنے پر ایمان نہیں لاتے اور اس کے بعد حشر پر ایمان لانے والوں کا ذکر ہے۔(تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۷، ۶ / ۲۱۰، ملخصاً)اس آیت میں حشر پر ایمان نہ لانے والوں کی چار صِفات بیان فرمائی گئی ہیں :
(1)… وہ لوگ اللہ تعالیٰ سے ملنے کی امید نہیں رکھتے۔ مفسرین نے اس آیت میں ’’امید‘‘ کے دومعنی بیان کئے ہیں۔ (۱) خوف۔ اس سورت میں آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو قیامت کے دن ہم سے ملنے کاخوف نہیں رکھتے تو وہ ثواب اور عذاب کو جھٹلا رہے ہیں۔ (۲) طمع۔ اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ دنیا پر مطمئن ہو بیٹھے اور اللہ تعالیٰ کے ثواب کی طمع نہیں رکھتے۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۷، ۲ / ۳۰۲)
(2)… دنیا کی زندگی پسند کر بیٹھے ہیں۔ یعنی انہوں نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا، اس تھوڑی سی اور فانی کو بہت زیادہ اور باقی رہنے والی پر ترجیح دی۔(مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۷، ص۴۶۴)
(3)… اس پر مطمئن ہوگئے ہیں۔ کفار کا یہ قلبی اطمینان دنیا اور اس کی لذتوں کی طرف میلان کی وجہ سے ہے، اسی لئے ان کے دلوں سے ڈر اور خوف نکل گیا اور جب اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرنے اور اس کے عذاب کا خوف دلانے والی باتیں سنتے ہیں تو ان کے دل اس طرف مائل ہی نہیں ہوتے۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۷، ۲ / ۳۰۲)
(4)… وہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے غافل ہیں۔ حضرت عبد للہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ یہاں آیات سے تاجدار ِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذاتِ پاک اور قرآن شریف مراد ہے اور غفلت کرنے سے مراد اُن سے اِعراض کرنا ہے۔(بغوی، یونس، تحت الآیۃ: ۷، ۲ / ۲۹۱)
دنیا اور آخرت سے متعلق مسلمانوں کا حال :
یہاں آیتِ مبارکہ میں کفار کے اعتقاد کے اعتبار سے یہ احوال بیان فرمائے گئے ہیں لیکن عملی طور پر مسلمان بھی ان میں سے بہت سی چیزوں میں مُلَوّث ہیں جیسے دلوں سے قیامت کے حساب کتاب اورعذاب ِ الہٰی کا خوف نکل جانا، دنیا کی زندگی کو ہی پسند کرنا اور اسی کیلئے کوشش کرنا اور اسی پر مطمئن ہوکر بیٹھ جانا، قرآن اور احکاماتِ الہٰیہ سے غفلت، دلوں کا سخت ہونا، شدید وعیدیں سن کر بھی گناہوں سے باز نہ آنا یہ سب چیزیں ہمارے اندر اِس آیت کی روشنی میں افعالِ کفار کا عکس نہیں دِکھا رہیں تو اور کیا ہے؟
{اُولٰٓىٕكَ مَاْوٰىهُمُ النَّارُ:ان لوگوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔} یعنی ان لوگوں کے کفر، تکذیب اور خبیث اعمال کے بدلے میں ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۸، ۲ / ۳۰۲)