banner image

Home ur Surah Ad Duha ayat 10 Translation Tafsir

اَلْضُّحٰی

Ad Duha

HR Background

وَ اَمَّا السَّآىٕلَ فَلَا تَنْهَرْﭤ(10)

ترجمہ: کنزالایمان اور منگتا کو نہ جھڑکو ۔ ترجمہ: کنزالعرفان اورکسی بھی صورت مانگنے والے کو نہ جھڑکو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اَمَّا السَّآىٕلَ فَلَا تَنْهَرْ: اورکسی بھی صورت مانگنے والے کو نہ جھڑکو۔ } یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ، جب آپ کے درِ دولت پر کوئی سوالی آ کر کچھ مانگے تو اسے کسی بھی صورت جھڑکنا نہیں  بلکہ اسے کچھ دے دیں  یا حسنِ اَخلاق اور نرمی کے ساتھ ا س کے سامنے نہ دینے کاعذر بیان کردیں ۔( خازن، الضحی، تحت الآیۃ:۱۰، ۴ / ۳۸۸، مدارک، الضحی، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۱۳۵۷، ملتقطاً)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اسی آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

مومن ہوں  مومنوں  پہ رؤفٌ رحیم ہو

سائل ہوں  سائلوں  کو خوشی لانہر کی ہے

            اور فرماتے ہیں :

مانگیں  گے مانگے جائیں  گے منھ مانگی پائیں  گے

سرکار میں  نہ ’’لا‘‘ ہے نہ حاجت ’’اگر‘‘ کی ہے

منگتا کا ہاتھ اٹھتے ہی داتا کی دَین تھی:

سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی اس شان کی کچھ جھلک ملاحظہ ہو،چنانچہ

(1)…غارِ ثَور میں حضرت صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی مجھے سانپ نے کاٹ لیا ہے توتاجدارِ رسالت صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اپنا لعابِ دہن لگا کر زہر کا اثر دور کر دیا۔

(2)…غزوۂ بدر کے موقع پر حضرت معوذ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنا کٹا ہوا بازو لے کے حاضر ہوئے توسیّد المرسَلین  صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اپنے دہنِ اَقدس سے مبارک لعاب لگا کر اسے جوڑ دیا۔

(3)…غزوۂ اُحد میں  تیر لگنے سے حضرت قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی آنکھ نکل گئی اور وہ اپنی نکلی ہوئی آنکھ لے  کر بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  میں  حاضر ہوگئے تو رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے لعاب ِدہن لگا کر ان کی آنکھ کو درست کر دیا۔

(4)… غزوۂ خیبر کے موقع پرحضرت علی المرتضیٰ  کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے آشوبِ چشم کی شکایت کی تو نبی اکرم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اپنالعابِ دہن لگا کر ان کی بیماری دور کر دی۔

(5)…اسی غزوہ کے موقع پر حضرت سلمہ بن اکوع رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنی زخمی پنڈلی لے کر حاضر ہوئے تو رسولِ کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اپنے لعابِ دہن سے اسے درست کر دیا۔

(6)…حضرت عبد اللّٰہ بن عتیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  اپنی ٹوٹی ہوئی ٹانگ لے کر بارگاہِ رسالت  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ میں  حاضر ہوئے تو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اپنا دستِ اَقدس پھیرکر ان کی ٹانگ کو درست کر دیا۔

(7)…ایک موقع پرصحابہ ٔ کرام رَضِیَ  اللّٰہُ تَعَالیٰٰ عَنْہُمْ نے پانی ختم ہو جانے پر فریاد کی تو انگلیوں  سے پانی کے چشمے بہا دئیے۔

            یہ تو دُنْیَوی عطاؤں  کی چند مثالیں  بیان کی ہیں  اور اب اُخروی عطا کے بارے میں  سنئے،چنانچہ

(8)…حضرت ربیعہ اور حضرت عکاشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے جنت مانگی تو اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے انہیں  جنت دے دی۔

(9)…کھجور کے ایک تنے نے عرض کی کہ مجھے جنت میں  بودیا جائے توسرکارعالی وقار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے اسے جنت میں  بو دیا۔

             اور حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی بارگاہ میں  صرف انسان ہی فریاد نہیں  کرتے تھے بلکہ جانور بھی اپنی فریادیں  عرض کر کے اپنی داد رَسی کرواتے تھے،چنانچہ

(10)…ایک اونٹ نے کام زیادہ ہونے اور چارہ کم ہونے کی فریاد کی توحضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ا س کی داد رسی کر دی۔

(11)…ایک شکاری کی قید میں  موجود ہرنی نے بچوں  کو دودھ پلانے کے لئے جانے کی اِلتجاء کی تو حضورِ انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ا س کی التجاء پوری کر دی۔

الغرض دو عالَم کے تاجدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی بارگاہ میں  سوال کر کے اپنی منہ مانگی مرادیں  پانے والوں  کی اتنی مثالیں  موجود ہیں  کہ اگر ان سب کو تفصیل سے بیان کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں :

مالکِ کَونین ہیں  گو پاس کچھ رکھتے نہیں

دوجہاں  کی نعمتیں  ہیں  ان کے خالی ہاتھ میں

اور فرماتے ہیں :

منگتا کا ہاتھ اٹھتے ہی داتا کی دَین تھی

دوری قبول و عرض میں  بس ہاتھ بھر کی ہے

            بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں  سائل سے طا لبِ علم مراد ہے لہٰذا اس کا اِکرام کرنا چاہیے اور جو اس کی حاجت ہو اسے پورا کرنا چاہئے اور اس کے ساتھ تُرش روئی اور بدخُلقی سے نہیں  پیش آنا چاہئے۔( خازن، الضحی، تحت الآیۃ:۱۰، ۴ / ۳۸۸)