banner image

Home ur Surah Ad Dukhan ayat 34 Translation Tafsir

اَلدُّخَان

Ad Dukhan

HR Background

اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ لَیَقُوْلُوْنَ(34)اِنْ هِیَ اِلَّا مَوْتَتُنَا الْاُوْلٰى وَ مَا نَحْنُ بِمُنْشَرِیْنَ(35)فَاْتُوْا بِاٰبَآىٕنَاۤ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(36)

ترجمہ: کنزالایمان بیشک یہ کہتے ہیں ۔ وہ تو نہیں مگر ہمارا ایک دفعہ کا مرنا اور ہم اٹھائے نہ جائیں گے۔ تو ہمارے باپ دادا کو لے آؤ اگر تم سچے ہو۔ ترجمہ: کنزالعرفان بیشک یہ (کفارِ مکہ)ضرورکہتے ہیں ۔ بیشک موت تو صرف ہماری پہلی موت ہی ہے اور ہم اٹھائے نہ جائیں گے۔ اگر تم سچے ہو تو ہمارے باپ دادا کو لے آؤ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ لَیَقُوْلُوْنَ: بیشک یہ ضرورکہتے ہیں ۔} یہاں سے دوبارہ کفارِ مکہ کے بارے میں کلام شروع ہو رہا ہے، چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ کفارِ مکہ ضرور کہتے ہیں کہ اس زندگانی کے بعد ایک موت کے علاوہ ہمارے لئے اور کوئی حال اور زندگی باقی نہیں ۔اس سے ان کا مقصود موت کے بعد زندہ کئے جانے کا انکار کرنا تھا جس کو اگلے جملے میں واضح کردیا کہ ہم موت کے بعددوبارہ کبھی زندہ کر کے اٹھائے نہیں جائیں گے،اگر تم اس بات میں  سچے ہو کہ ہم مرنے کے بعد زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے تو ہمارے باپ دادا کودوباہ زندہ کرکے لے آؤ ۔

            کفارِ مکہ نے یہ سوال کیا تھا کہ اگر موت کے بعد کسی کا زندہ ہونا ممکن ہو تو قُصَیْ بِن کلاب کو زندہ کردو اور یہ ان کی جاہلانہ بات تھی کیونکہ جس کام کے لئے وقت مُعیَّن ہو اس کا اس وقت سے پہلے وجود میں  نہ آنا اس کے ناممکن ہونے کی دلیل نہیں ہوتا اور نہ اس کا انکار صحیح ہوتا ہے، جیسے اگر کوئی شخص کسی نئے اُگے ہوئے درخت یا پودے کو کہے کہ اس میں سے اب پھل نکالو ورنہ ہم نہیں مانیں گے کہ اس درخت سے پھل نکل سکتا ہے تو اس کو جاہل قرار دیا جائے گا اور اس کا انکار محض حماقت یا جھگڑا ہوگا۔(تفسیرکبیر،الدخان، تحت الآیۃ:۳۴-۳۶،۹ / ۶۶۲، روح البیان،الدخان، تحت الآیۃ:۳۴-۳۶، ۸ / ۴۱۶-۴۱۷، ملتقطاً)