banner image

Home ur Surah Al Juma ayat 11 Translation Tafsir

اَلْجُمُعَة

Surah Al Juma

HR Background

وَ اِذَا رَاَوْا تِجَارَةً اَوْ لَهْوَاﰳ انْفَضُّوْۤا اِلَیْهَا وَ تَرَكُوْكَ قَآىٕمًاؕ-قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّهْوِ وَ مِنَ التِّجَارَةِؕ-وَ اللّٰهُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ(11)

ترجمہ: کنزالایمان اور جب انھوں نے کوئی تجارت یا کھیل دیکھا اس کی طرف چل دئیے اور تمہیں خطبہ میں کھڑا چھوڑ گئے تم فرماؤ وہ جو اللہ کے پاس ہے کھیل سے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ کا رزق سب سے اچھا ۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور جب انہوں نے کوئی تجارت یا کھیل دیکھا تواس کی طرف چل دیئے اور تمہیں کھڑا چھوڑ گئے تم فرماؤ: جو اللہ کے پاس ہے وہ کھیل سے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ بہترین روزی دینے والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِذَا رَاَوْا تِجَارَةً اَوْ لَهْوًا: اور جب انہوں  نے کوئی تجارت یا کھیل دیکھا ۔} شانِ نزول:حضرت جابربن عبداللّٰہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  : ایک مرتبہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جمعہ کے دن کھڑے (ہوکرجمعہ کاخطبہ ارشاد فرمارہے) تھے کہ اچانک مدینہ طیبہ میں ایک تجارتی قافلہ آپہنچا (دستور کے مطابق اعلان کیلئے طبل بجایا گیا)تو رسول اللّٰہ صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اصحاب اس کی طرف چل دئیے حتّٰی کہ 12 آدمیوں  کے سوامسجد میں  کوئی بھی باقی نہ بچا۔ میں  ، حضرت ابوبکرصدیق  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اورحضرت عمرفاروق  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ان بارہ افراد میں  شامل تھے ۔اس وقت یہ آیت نازل ہوئی ۔( مسلم،کتاب الجمعۃ،باب فی قولہ تعالی:واذا رأوا تجارۃ او لہونا انفضوا الیہا۔۔۔الخ،ص۴۲۹،الحدیث:۳۸(۸۶۳))

            اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، جب انہوں  نے کسی تجارت کے بارے میں  جانا یا کھیل کے بارے میں  سنا تواس کی طرف چل دیئے اورآپ کو خطبے کی حالت میں  منبر پر کھڑا چھوڑ گئے ،آپ ان سے فرمادیں : جونماز کا اجر و ثواب اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں  حاضر رہنے کی برکت و سعادت ہے جو درحقیقت اللّٰہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ کھیل اور تجارت سے بہتر ہے اور چونکہ اللّٰہ تعالیٰ بہترین روزی دینے والا ہے اس لئے تم اسی کی طرف چلو اور اسی سے رزق طلب کرو۔( روح البیان، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۱۱، ۹ / ۵۲۸)

            یاد رہے کہ جب یہ واقعہ رونما ہوا اس وقت بہت تنگی اور مہنگائی کا دورتھا اور صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ اس خیال سے چلے گئے تھے کہ کہیں  اَجناس ختم نہ ہو جائیں  اور وہ انہیں  پانے سے رہ جائیں  ،اور ایسے حالات میں  اس طرح ہونا ایک فِطری امر ہے نیز اس آیت کے نزول سے پہلے اِس طرح کے فعل سے کہیں  منع بھی نہیں  کیا گیا تھا بلکہ اِس آیت کے ذریعے حکم نازل کیا گیا تو حکم کے نزول سے پہلے ایسا کرنا کوئی گناہ نہیں  تھا ، اسی لئے ا س آیت میں  اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی مذمت نہیں  فرمائی بلکہ تربیت فرمائی ہے کہ ایسا کرنا ان کی شان کے لائق نہیں ،لہٰذا ان کے اس فعل پر کوئی اعتراض نہیں  کیا جا سکتا ۔

          نوٹ: اس سے ثابت ہوا کہ خطیب کو کھڑے ہو کر خطبہ پڑھنا چاہیے۔