Home ≫ ur ≫ Surah Al Adiyat ≫ ayat 8 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ اِنَّهٗ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْدٌﭤ(8)اَفَلَا یَعْلَمُ اِذَا بُعْثِرَ مَا فِی الْقُبُوْرِ(9)وَ حُصِّلَ مَا فِی الصُّدُوْرِ(10)اِنَّ رَبَّهُمْ بِهِمْ یَوْمَىٕذٍ لَّخَبِیْرٌ(11)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنَّهٗ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْدٌ: اور بیشک وہ مال کی محبت میں ضرور بہت شدید ہے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ بیشک انسان مال کی محبت اورا س کی طلب میں توبہت مضبوط اور طاقتور ہے جبکہ اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کیلئے کمزور ہے تو کیا مال کی محبت میں مبتلا وہ انسان نہیں جانتا کہ جب وہ مردے اٹھائے جائیں گے جو قبروں میں ہیں اور انہیں اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا اور جو حقیقت سینوں میں ہے وہ کھول دی جائے گی تو اس وقت اللّٰہ تعالیٰ انہیں ان کے نیک اور برے اعمال کا بدلہ دے گا ، بے شک ان کا رب عَزَّوَجَلَّ قیامت کے دن جو کہ فیصلے کا دن ہے ان کے اعمال،ان کی نیتوں اوران کی اطاعت ونافرمانی کی خوب خبر رکھنے والا ہے جیسا کہ ہمیشہ سے ہے ۔(تفسیر کبیر، العادیات، تحت الآیۃ: ۸، ۱۱ / ۲۶۲، سمرقندی، العادیات، تحت الآیۃ: ۸-۱۱، ۳ / ۵۰۳-۵۰۴، مدارک، العادیات، تحت الآیۃ: ۸-۱۱، ص۱۳۶۹، ملتقطاً)
نور العرفان میں ہے:غافل انسان مال کی محبت کی وجہ سے سخت دل ہے کیونکہ مال کی محبت سختیِ دل کا باعث ہے، جیسے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی محبت نرمیِ دل کا سبب ہے دیکھو یزید، فرعون، شداد، جانوروں سے زیادہ سخت دل تھے، محض محبت مال سے یا غافل انسان مال کی محبت میں سخت دل ہے، دین میں نرم(یعنی دین میں سختی برداشت نہیں کرتے) ،اسی لئے عام طور پر لوگ دنیا کے لئے وہ مشقتیں جھیل لیتے ہیں جو دین کے لئے نہیں جھیلتے۔
مال سے محبت کی چار صورتیں :
خیال رہے کہ محبت ِمال چار طرح کی ہے:(1)حُبِّ ایمانی جیسے حج وغیر ہ کے لئے مال کی چاہت ،(2) حُبِّ نفسانی جیسے اپنے آرام و راحت کے لئے مال سے رغبت،(3) حُبِّ طُغیانی جیسے محض جمع کرنے اور چھوڑ جانے کے لئے مال سے محبت،(4)حُبِّ شیطانی یعنی گناہ وسرکشی کے لئے مال کی محبت۔ یہاں آخری دو محبتیں مراد ہیں ، پہلی قسم کی محبت عبادت ہے، حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا تھا: ’’اِنِّیْۤ اَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَیْرِ ‘‘ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو جہاد کے گھوڑوں سے بڑی محبت تھی، چونکہ مال بہت خیر کا ذریعہ ہے، اسی لئے اسے خیر فرمایا گیا۔ صوفیاء کے نزدیک نعمت سے ایسی محبت بری ہے جو دل کو بھر دے کہ مُنعِم کی محبت کی جگہ نہ رہے، وہی یہاں مراد ہے، اندرونِ دل صرف یار کی محبت ہو، وہاں اَغیار نہ ہوں ، باقی محبتیں دل کے باہر رہیں ، کشتی پانی میں رہے سلامت ہے، اگر پانی کشتی میں آجائے تو ڈوب جائے گی۔