Home ≫ ur ≫ Surah Al Ahqaf ≫ ayat 10 ≫ Translation ≫ Tafsir
قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ وَ كَفَرْتُمْ بِهٖ وَ شَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَلٰى مِثْلِهٖ فَاٰمَنَ وَ اسْتَكْبَرْتُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ(10)
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ اَرَءَیْتُمْ: تم فرماؤ: بھلا دیکھو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرمادیں کہ اے کافرو! میری طرف جس قرآن کی وحی کی جاتی ہے اگر وہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو اور تمہارا حال یہ ہو کہ تم اس کا انکار کر رہے ہو جبکہ بنی اسرائیل کا ایک گواہ اس پر گواہی دے چکاہو کہ وہ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، پھر وہ گواہ تو ایمان لے آیا اور تم نے ایمان لانے سے تکبر کیا تو مجھے بتاؤ کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا ؟کیا ایسی صورت میں تم ظالم نہیں ہو؟ (یقینا اِس صورت میں تم نے ایمان نہ لا کر اپنی جانوں پر ظلم کیا اور )بے شک اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔( خازن، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۱۲۴، روح البیان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۱۰، ۸ / ۴۶۹، ملتقطاً)
بنی اسرائیل کے گواہ سے مراد کون ہے؟
جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں بنی اسرائیل کے گواہ سے مراد حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں ، اسی لئے کہا گیا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے کیونکہ حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ مدینہ منورہ میں ایمان لائے۔( مدارک، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۱۱۲۵)
آپ کے ایمان لانے سے متعلق حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : جب حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے سناکہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ منورہ میں تشریف لے آئے ہیں تووہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی:میں آپ سے تین ایسی چیزوں کے بارے میں سوال کروں گاجن کونبی کے سواکوئی نہیں جانتا۔(1)قیامت کی پہلی علامت کیاہے ؟(2)اہلِ جنت کاپہلاکھاناکون سا ہوگا؟ (3)بچہ اپنے باپ یاماں کے کیسے مشابہ ہوتاہے ؟ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کی پہلی نشانی ایک آگ ہے جولوگوں کومشرق سے مغرب تک جمع کرے گی اوراہلِ جنت کاپہلاکھانامچھلی کی کلیجی کاٹکڑاہوگااورجب مرد کا پانی عورت کے پانی پرغالب آجائے تووہ بچہ کی شبیہ اپنی طرف کھینچ لیتاہے اورجب عورت کاپانی مرد کے پانی پرغالب آجائے تووہ بچہ کی شبیہ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔حضرت عبداللہ بن سلام نے (یہ سن کر) کہا: ’’اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللہ وَ اَشْھَدُ اَنَّکَ رَسُوْلُ اللہ ‘‘ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ۔ یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بے شک یہودی بہت بہتان تراش قوم ہے، اگر ان کومیرے اسلام کاآپ کے اُن سے پوچھنے سے پہلے علم ہوگیا تووہ مجھ پربہتان لگائیں گے ۔ پھر یہودی آئے تونبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان سے سوال کیا’’ تم میں عبداللہ کیسے ہیں ؟انہوں نے کہا: وہ ہم میں سب سے بہتر ہیں ، ان کے والد بھی ہم میں سب سے بہترتھے،وہ ہمارے سردارہیں اورہمارے سردار کے بیٹے ہیں ۔ارشاد فرمایا: ’’اگر عبداللہ بن سلام مسلمان ہوجائیں تو تم کیا کہو گے؟ انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ ان کواس سے اپنی پناہ میں رکھے۔ پھر حضرت عبداللہ بن سلام باہرنکلے اور کہا: ’’اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللہ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللہ‘‘ تو یہود یوں نے کہا:وہ ہم میں سب سے بُرے ہیں ، سب سے بُرے شخص کے بیٹے ہیں اور ان کی برائیاں بیان کیں ۔ حضرت عبداللہ بن سلام نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے اسی چیز کاخدشہ تھا۔( بخاری، کتاب التفسیر، باب قولہ: من کان عدوّا لجبریل، ۳ / ۱۶۶، الحدیث: ۴۴۸۰)