banner image

Home ur Surah Al Ahzab ayat 14 Translation Tafsir

اَلْاَحْزَاب

Al Ahzab

HR Background

وَ لَوْ دُخِلَتْ عَلَیْهِمْ مِّنْ اَقْطَارِهَا ثُمَّ سُىٕلُوا الْفِتْنَةَ لَاٰتَوْهَا وَ مَا تَلَبَّثُوْا بِهَاۤ اِلَّا یَسِیْرًا(14)

ترجمہ: کنزالایمان اور اگر ان پر فوجیں مدینہ کے اطراف سے آتیں پھر ان سے کفر چاہتیں تو ضرور ان کا مانگا دے بیٹھتے اور اس میں دیر نہ کرتے مگر تھوڑی۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور اگر ان پرمدینہ کی (مختلف) طرفوں سے فوجیں آجاتیں پھر ان سے فتنے کا مطالبہ کیا جاتا تو ضرور ان کامطالبہ دیدیتے اور اس میں دیر نہ کرتے مگر تھوڑی سی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَوْ دُخِلَتْ عَلَیْهِمْ مِّنْ اَقْطَارِهَا: اور اگر ان پرمدینہ کی طرفوں  سے فوجیں  داخل کردی جاتیں ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ منافقوں  کا یہ کہنا کہ ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں ، محض ایک بہانہ ہے اور اگربالفرض مدینہ منورہ کے مختلف اَطراف سے فوجیں  ان پر حملہ آور ہو جاتیں ، پھر ان منافقوں  سے یہ مطالبہ کیا جاتا کہ تمہارے بچنے کی صورت یہ ہے کہ تم اسلام سے مُنْحرف ہو جاؤ، تو یہ لوگ ضرور ان کامطالبہ پورا کر دیتے اور ا س مطالبے کو پورا کرنے میں  چند لمحوں  کی ہی تاخیر کرتے۔

 عقیدے کی کمزوری اور نفاق کا نقصان:

            معلوم ہو اکہ جب بندہ یقین اور صبر کی کمی کا شکار ہوتا ہے، بزدلی اور انسانوں  کا خوف اس پر غالب ہوتا ہے، ہر دینی چیز میں  شک کرتا ہے اور کسی دینی حکم پر عمل کرنے کی صورت میں  اگر اَذِیَّت پہنچنے کا صرف احتمال ہی ہو تو اس سے گھبرانے لگ جاتا ہے، تو اس وقت اس کا دل عقیدے کی کمزوری اور نفاق کے مرض میں  مبتلا ہوجاتا ہے، پھر اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ مسلمان کہلانے کے باوجود اگر کسی ہلکی سی تکلیف سے ڈرا کر اس سے کفر و شرک کا مطالبہ کیا جائے تو وہ اس مطالبے کو پورا کرنے میں  دیر نہیں  لگاتا۔

            افسوس! فی زمانہ اسی طرح کی صورتِ حال مسلمانوں  میں  بھی پائی جاتی ہے اور ان میں  بھی عقیدے کی کمزوری کا مرض عام ہوتا نظر آ رہاہے اور ان کا حال یہ ہو چکا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کے وجود پر کوئی عقلی اعتراضاتکرے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آخری نبی ہونے کے باوجود کوئی اور نبوت کا دعویٰ کر ے، قرآنِ مجید کی حقانیت پر کوئی انگلی اٹھائے اور اسلامی احکام کو اپنی عقل کے ترازو پر تول کر ان کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کرے تو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے والے اپنے دین و مذہب سے پھرنے میں  دیر نہیں  لگاتے اور اگر کسی طرح اپنے دین پر قائم رہیں  تو صرف ان اسلامی احکام پر عمل کے لئے تیار ہوتے ہیں  جو انہیں  اپنی عقل کے مطابق نظر آئیں  اور جو ان کی عقل کے برخلاف ہوں تو انہیں  جھٹلانے اور دین ِاسلام کے دامن پر ایک بد نما داغ قرار دینے میں  تاخیر نہیں  کرتے۔ اللہ تعالیٰ انہیں  ہدایت ا ور عقلِ سلیم عطا فرمائے،اٰمین۔