banner image

Home ur Surah Al Ahzab ayat 21 Translation Tafsir

اَلْاَحْزَاب

Al Ahzab

HR Background

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًاﭤ(21)

ترجمہ: کنزالایمان بیشک تمہیں رسولُ الله کی پیروی بہتر ہے اس کے لیے کہ الله اور پچھلے دن کی امید رکھتا ہو اور الله کو بہت یاد کرے۔ ترجمہ: کنزالعرفان بیشک تمہارے لئےاللہ کے رسول میں بہترین نمونہ موجود ہے اس کے لیے جو الله اور آخرت کے دن کی امید رکھتا ہے اور الله کو بہت یاد کرتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَقَدْ كَانَ لَكُمْ: بیشک تمہارے لئے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت میں  پیروی کیلئے بہترین طریقہ موجود ہے جس کا حق یہ ہے کہ اس کی اقتدا اور پیروی کی جائے،جیسے غزوہِ خندق کے موقع پر جن سنگین حالات کا سامنا تھا کہ کفارِ عرب اپنی بھرپورافرادی اور حَربی قوت کے ساتھ مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کے لئے اچانک نکل پڑے تھے اور ان کے حملے کو پَسپا کرنے کے لئے جس تیاری کی ضرورت تھی اس کے لئے مسلمانوں  کے پاس وقت بہت کم تھا اور افرادی قوت بھی ا س کے مطابق نہ تھی،خوارک کی اتنی قلت ہو گئی کہ کئی کئی دن فاقہ کرنا پڑتا تھا،پھر عین وقت پر مدینہ منورہ کے یہودیوں  نے دوستی کا معاہدہ توڑ دیا اور ان کی غداری کی وجہ سے حالات مزید سنگین ہو گئے، ایسے ہو شْرُبا حالات میں  تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی کیسی شاندار سیرت پیش فرمائی کہ قدم قدم پر اپنے جانثار صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے ساتھ ساتھ موجود ہیں ، جب خندق کھودنے کا موقع آیا تو اس کی کھدائی میں  خود بھی شرکت فرمائی، چٹانوں  کو توڑااور مٹی کو اٹھا اٹھا کر باہر پھینکا، جب خوراک کی قلت ہوئی تودوسرے مجاہدین کی طرح خود بھی فاقہ کشی برداشت فرمائی اور اس دوران اگر صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے فاقے کی تکلیف سے پیٹ پر ایک پتھر باندھا تو سیّد العالَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مبارک شکم پر دو پتھر بندھے ہوئے نظر آئے۔ شدید سردی کے باوجود ہفتوں  صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے ساتھ میدانِ جنگ میں  قیام فرمایا۔جب دشمن حملہ آور ہوا تو اس کے لشکر کی تعداد اور حربی طاقت کو دیکھ کر پریشان نہیں  ہوئے بلکہ عزم و ہمت کا پیکر بنے رہے اور صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی حوصلہ افزائی فرماتے رہے۔ جب بنو قریظہ کے بارے میں  خبر ملی کہ انہوں نے عہد توڑ دیا ہے تو اسے سن کر مُقَدّس جَبین پر بل نہیں  پڑے اورمنافق لوگ مختلف حیلوں کے ذریعے میدانِ جنگ سے راہِ فرار اختیار کرنے لگے تب بھی پریشان نہ ہوئے اور اِستقامت کے ساتھ ان تمام حالات کا مقابلہ فرماتے رہے، جنگ میں  ثابت قدمی اور شجاعت دکھائی، اس میں  آنے والی سختیوں  کا صبر وہمت سے مقابلہ کیا، اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کے لئے کوئی کسر نہ چھوڑی اور آخر کار اللہ تعالیٰ کی مدد سے کفار کے لشکروں  کو شکست دی۔ان تمام چیزوں  کے پیش ِنظر مسلمانوں  کو فرمایا گیا کہ اے مسلمانو!تمہیں  چاہئے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت کی پیروی کرو اور یہ بات وہ مانے گا جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف، اس کی یاد، اس سے امید اور قیامت کی دہشت ہوگی۔

          نوٹ:یہ آیت مبارکہ اگرچہ ایک خاص موقع پر نازل ہوئی لیکن اپنے الفاظ کے اعتبار سے عام ہے اور اس موقع کے علاوہ بھی سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت ِ طیبہ کے ان تمام اُمورمیں  پیروی کا حکم ہے جو آپ کی خصوصیت نہیں  ہیں۔

تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی اوراطاعت کا حکم :

            قرآنِ مجید میں  متعدد مقامات پر نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت و فرمانبرداری اور پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ‘‘ ( حشر:۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور رسول جو کچھ تمہیں  عطا فرمائیں  وہ لے لو اور جس سے منع فرمائیں  (اس سے) باز رہو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سخت عذاب دینے والاہے۔

            اور ارشاد فرماتا ہے: ’’قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘(اٰل عمران:۳۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے حبیب!فرمادو کہ اے لوگو! اگر تم  اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبرداربن جاؤاللہ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

            معلوم ہوا کہ حقیقی طور پر کامیاب زندگی وہی ہے جو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نقش ِقدم پر ہو، اگر ہمارا جینا مرنا، سونا جاگنا حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نقش ِقدم پر ہو جائے تو ہمارے سب کام عبادت بن جائیں  گے۔

             دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں  اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی کامل طریقے سے پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ اور سیرتِ رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی:  

            صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں  نے سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرتِ مبارکہ پر عمل پیرا ہونے کو اپنی زندگی کا اَوّلین مقصد بنایا ہواتھا اور ان کے نزدیک تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَقوال، اَفعال اور اَحوال کی پیروی کرنے سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ چیز اور کوئی نہ تھی، یہاں  اسی سے متعلق صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے 5 واقعات ملاحظہ ہوں :

(1)…غزوۂ اَحزاب میں  سرکارِدو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کو حکم دیا کہ کفار کی خبر لائیں ، لیکن ان سے چھیڑچھاڑ نہ کریں ، وہ آئے تو دیکھا کہ ابوسفیان آگ تاپ رہے ہیں ، کمان میں  تیر جوڑ لیا اور نشانہ لگانا چاہا، لیکن رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم یاد آگیا اور رک گئے۔( مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب غزوۃ الاحزاب، ص۹۸۸، الحدیث: ۹۹(۱۷۸۸))

(2)…پہلے یہ دستور تھا کہ جب صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سفر ِجہاد میں  کسی منزل پر قیام فرماتے تھے تو ادھر ادھر پھیل جاتے تھے، ایک بار آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ یہ مُتَفَرِّق ہونا شیطان کا کام ہے۔ اس کے بعد صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے اس کی اس شدت سے پابندی کی کہ جب بھی منزل پر اترتے تھے تواس قدر سمٹ جاتے تھے کہ اگر ایک چادرتان لی جاتی توسب کے سب اس کے نیچے آجاتے۔( ابو داؤد ، کتاب الجہاد، باب ما یؤمر من انضمام العسکر وسعتہ، ۳ / ۵۸، الحدیث: ۲۶۲۸)

(3)…حضرت محمد بن اسلم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نہایت بڑی عمر کے صحابی تھے، لیکن جب بازار سے پلٹ کر گھر آتے اور چادر اتارنے کے بعد یادآتا کہ انہوں  نے مسجد ِنبوی میں  نماز نہیں  پڑھی تو کہتے کہ خدا کی قسم! میں  نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مسجد میں  نماز نہیں پڑھی،حالانکہ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہم سے فرمایا تھا کہ جو شخص مدینہ میں  آئے تو جب تک اس مسجد میں  دورکعت نماز نہ پڑھ لے گھر واپس نہ جائے، یہ کہہ کر چادر اٹھاتے اور مسجد ِنبوی میں  دورکعت نماز پڑھ کے گھر واپس آتے۔( اسد الغابہ، باب المیم والحائ، محمد بن اسلم، ۵ / ۸۰ملتقطا)

(4)…حضرت حمران بن ابان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں :ہم حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس تھے، آپ نے پانی منگوا کر وضو کیا اور جب وضو کر کے فارغ ہوئے تو مسکرائے اور فرمایا:کیا تم جانتے ہو کہ میں  کیوں  مسکرایا؟پھر (خود ہی جواب دیتے ہوئے) فرمایا: ’’جس طرح میں  نے وضو کیا اسی طرح رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وضو فرمایا تھا اور اس کے بعد مسکرائے تھے۔( مسند امام احمد، مسند عثمان بن عفان رضی اللّٰہ تعالی عنہ، ۱ / ۱۳۴، الحدیث: ۴۳۰)

(5)…حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنی وفات سے چند گھنٹے پہلے اپنی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے دریافت کیا کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کفن میں  کتنے کپڑے تھے اورحضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی وفات شریف کس دن ہوئی ؟( بخاری، کتاب الجنائز، باب موت یوم الاثنین، ۱ / ۴۶۸، الحدیث: ۱۳۸۷)

            ا س سوال کی وجہ یہ تھی کہ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی آرزو تھی کہ کفن اور یومِ وفات میں  حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مُوافقت ہو۔ زندگی میں  حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اتباع تو کرتے ہی تھے وہ وفات میں  بھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کی اتباع چاہتے تھے۔( عمدۃ القاری، کتاب الجنائز، باب موت یوم الاثنین، ۶ / ۳۰۰، تحت الحدیث: ۱۳۸۷)

حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زندگی ہر ایک کے لئے کامل نمونہ ہے:

            یاد رہے کہ عبادات، معاملات، اَخلاقیات، سختیوں  اور مشقتوں  پر صبر کرنے میں  اورنعمتوں  پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے میں ، الغرض زندگی کے ہر شعبہ میں  اور ہر پہلو کے اعتبار سے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مبارک زندگی اور سیرت میں  ایک کامل نمونہ موجود ہے، لہٰذا ہر ایک کو اور بطورِ خاص مسلمانوں  کو چاہئے کہ وہ اَقوال میں ،اَفعال میں ، اَخلاق میں  اور اپنے دیگر احوال میں  سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مبارک سیرت پر عمل پیرا ہوں  اور اپنی زندگی کے تمام معمولات میں  سیّد العالَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی کریں۔

            مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی کتاب’’شانِ حبیب الرحمٰن ‘‘ میں  اس آیت پر بہت پیارا کلام فرمایا، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ سرکارِ اَبد قرار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مبارک ذات ہر درجے اور ہر مرتبے کے انسان کے لئے نمونہ ہے، جیسے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے توکُّل کا حال یہ تھا کہ دو دوماہ تک گھر میں  آگ نہیں  جلتی، صرف کھجوروں  اور پانی پر گزارہ ہوتا، توامت کے مَساکین کو چاہئے کہ ان مبارک حالات کو دیکھیں  اور صبر سے کام لیں۔

            جو سلطنت اور بادشاہت کی زندگی گزار رہا ہے، تو وہ ان حالات کا ملاحظہ کرے کہ مکہ مکرمہ فتح ہو گیا، تمام وہ کفار سامنے حاضر ہیں  جنہوں  نے بے انتہا تکلیفیں  پہنچائی تھیں ، آج موقع تھا کہ ان تمام گستاخوں  سے بدلہ لیا جائے مگر ہو ایہ کہ فتح فرماتے ہی عام معافی کا اعلان فرما دیا کہ جو ابو سفیان کے گھر میں  داخل ہو جائے ا س کو امن ہے،جو اپنا دروازہ بند کرلے اس کو امن ہے، جو ہتھیار ڈال دے ا س کو امن ہے، الغرض،حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر دس بھائیوں  نے چند گھنٹے ظلم و ستم کیاجس کے نتیجے میں  ایک مختصر عرصے تک آپ آزمائشوں  میں  مبتلا رہے اور جب وہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سلطنت میں  غلہ لینے حاضر ہوئے تو آپ نے ان سے فرمایا: ’’لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَؕ-یَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ‘‘ آج تم پر کوئی سختی نہ ہو گی، اللہ تمہاری مغفرت فرما دے۔ مگر حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے 13 سال تک اپنے او پر اہلِ مکہ کی سختیاں  برداشت کیں ، صحابہ ٔکرام، اہلِ بیت ِعظام،ان کے گھر والے اور ان حضرات کی جان و مال، عزت وآبرو سب ہی خطرے میں  رہے اورآخر کار دیس کو چھوڑ کر پردیسی ہونا پڑا، مگر جب اپنا موقع آیا تو سب کو معاف فرما دیا،لہٰذاقیامت تک کے سَلاطین اس کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنائیں ۔

            اگر کوئی مالداری اور خوشحالی کی زندگی گزارنا چاہتا ہے تو ان حالات کو ملاحظہ کرے کہ ایک شخص کے کھیت میں  لمبی ککڑی پیدا ہوئی، تحفہ کے طور پر بارگاہ میں  حاضر کی، تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کے عِوَض میں  ایک لپ بھر سونا عنایت فرمایا۔ایک بار بکریوں  سے بھرا ہوا جنگل حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ملکیت میں  آیا،کسی نے عرض کی: یاحَبِیبَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اب اللہ تعالیٰ نے حضور کو بہت ہی مالدار بنا دیا۔ ارشادفرمایا: ’’ تو نے میری مالداری کیا دیکھی ؟عرض کی: اس قدر بکریاں  ملکیت میں  ہیں ۔ ارشاد فرمایا: جا سب تجھ کو عطا فرما دیں ۔ وہ اپنی قوم میں  یہ مال لے کر پہنچے اور قوم والوں  سے کہا : اے لوگو!ایمان لے آؤ،رب کی قسم! محمدٌ  رَّسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اتنا دیتے ہیں  کہ فقر کاخوف نہیں  فرماتے۔ حضرت عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو ایک بار اتنا دیا کہ وہ اٹھا نہ سکے، لہٰذا مالدار یہ واقعات اپنے خیال میں  رکھیں  اور زندگی گزاریں ۔

            اگر کسی کی زندگی اہل و عیال کی زندگی ہے تو وہ یہ خیال کرے کہ میری تو ایک یا دو یا زیادہ سے زیادہ چار بیویاں  ہیں  اور کچھ اولاد مگر محبوب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی 9 بیویاں  ہیں ، اولاد اور اولاد کی اولاد،غلام، لونڈیاں ، مُتَوَسِّلین اور مہمانوں  کا ہجوم ہے، پھر کس طرح ان سے برتاؤ فرمایا اور اسی کے ساتھ ساتھ کس طرح رب عَزَّوَجَلَّ کی یاد فرمائی۔

            اگر کوئی تارک الدنیا اپنی زندگی گزارنا چاہتا ہے تو غارِ حرا کی عبادت، وہاں  کی ریاضت، دنیا کی بے رغبتی کو دیکھے۔

            سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قوت و طاقت کا یہ حال ہے کہ جنگ ِحُنَین میں  آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خچر پر تنہا رہ گئے، مسلمانوں  کے پاؤں  اکھڑ گئے، کفار نے خچر کو گھیر لیا،حضرت عباس اور ابو سفیان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا باگ پکڑے ہوئے تھے، جب ملاحظہ فرمایا کہ کفار نے یلغار کی ہے تو خچر سے اترے اور فرمایا: ہم جھوٹے نبی نہیں  ہیں ، ہم عبد المطلب کے پوتے ہیں ، اس پرکسی کی ہمت اور جرأت نہ ہوئی کہ سامنے ٹھہرجاتا۔ابو رکانہ عرب کا مشہور پہلوان تھا،جو کبھی بھی کسی سے مغلوب نہ ہوتا تھا،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تین بار اسے ز مین پر دے مارا، وہ اسی پر حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مداح بن گیا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے رحم و کرم کا یہ حال کہ نہ کبھی کسی کو برا فرمایا نہ خادم یا اہلِ خانہ کو ہاتھ سے مارا (لہٰذا طاقت اور قوت رکھنے والے ان حالات پر غور کریں ) غرض کہ ساری قومیں  (اور ہر مرتبے کے انسان سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذات مبارک کو) اپنے لئے نمونہ بنا کر دنیا میں  آرام اور ہدایت سے رہ سکتے ہیں۔( شان حبیب الرحمٰن، ص۱۵۸-۱۶۰، ملخصاً)