Home ≫ ur ≫ Surah Al Ahzab ≫ ayat 33 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى وَ اَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتِیْنَ الزَّكٰوةَ وَ اَطِعْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًا(33)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ: اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو۔} یعنی اے میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ازاواج! تم اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور اپنی رہائش گاہوں میں سکونت پذیر رہو (اور شرعی ضرورت کے بغیر گھروں سے باہر نہ نکلو۔) یاد رہے کہ اس آیت میں خطاب اگرچہ ازواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کو ہے لیکن اس حکم میں دیگر عورتیں بھی داخل ہیں ۔( روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۳، ۷ / ۱۷۰)
اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ اور گھر سے باہر نکلنا:
ازواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ نے اس حکم پر کس حد تک عمل کیا ،اس کی ایک جھلک ملاحظہ ہو،چنانچہ امام محمد بن سیرین رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : مجھے بتایاگیاکہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زوجہ مطہرہ حضرت سودہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے کہاگیا:آ پ کوکیاہوگیاہے کہ آپ نہ حج کرتی ہیں اورنہ عمرہ کرتی ہیں ؟انہوں نے جواب دیا: میں نے حج بھی کیاہے اورعمرہ بھی کیاہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیاہے کہ میں گھرمیں رہوں ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! میں دوبارہ گھرسے نہیں نکلوں گی ۔ راوی کا بیان ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !وہ اپنے دروازے سے باہرنہ آئیں یہاں تک کہ وہاں سے آپ کاجنازہ ہی نکالاگیا۔( در منثور، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۳، ۶ / ۵۹۹-۶۰۰)
اللہ تعالیٰ ہماری ماں کے درجات بلند فرمائے اور مسلمان خواتین کو ان کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو یہ حکم ارشاد فرمایا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں ٹھہری رہا کریں اور شرعی ضرورت و حاجت کے بغیر اپنے گھر سے باہر نہ نکلیں اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عورتوں کے اس عمل کی فضیلت بھی بیان فرمائی ہے ،چنانچہ حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ عورتیں رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں اورانہوں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مرد اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد میں شریک ہو کر فضیلت لے گئے اورہماراتوکوئی ایساعمل نہیں جسے بجالاکرہم مجاہدین کادرجہ پاسکیں ؟حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان سے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے جواپنے گھرمیں ٹھہری رہے وہ ان مجاہدین کادرجہ پائے گی جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہادکرتے ہیں ۔( مسند البزار، مسند ابی حمزۃ انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ، ۱۳ / ۳۳۹، الحدیث: ۶۹۶۲)
اس روایت سے ہمارے معاشرے کی ان عورتوں کوسبق حاصل کرناچاہیے جوبلاضرورتِ شرعی گھروں سے باہر نکلتی اورگھومتی پھرتی ہیں اوربازاروں کی رونق بنی رہتی ہیں ۔اگریہ عورتیں گھروں میں رہیں توان کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جہادکرنے والے مجاہدین کی طرح ثواب ملے ۔
یاد رہے کہ دین ِاسلام میں عورت کو گھر میں ٹھہری رہنے کا جو حکم دیا گیا اس سے مقصود یہ ہر گز نہیں کہ دین ِاسلام عورتوں کے لئے یہ چاہتا ہے کہ جس طرح پرندے پنجروں میں اور جانور باڑے میں زندگی بسر کرتے ہیں اسی طرح عورت بھی پرندوں اور جانوروں کی طرح زندگی بسرکرے، بلکہ اسے یہ حکم اس لئے دیاگیا ہے کہ اس میں اس کی عزت و عصمت کا تَحَفُّظ زیادہ ہے۔اسے آسان انداز میں یوں سمجھئے کہ جس کے پاس قیمتی ترین ہیرا ہو وہ اسے لے کر سرِ عام بازاروں میں نہیں گھومتا بلکہ اسے مضبوط سے مضبوط لاکر میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اس کی یہ دولت محفوظ رہے اور کوئی لٹیرا اسے لوٹنے کی کوشش نہ کرے اور اس کا یہ عمل عقلِ سلیم رکھنے والوں کی نظر میں بہت اچھا اور قابلِ تعریف ہے اوراس کی بجائے اگر وہ شخص اپنا قیمتی ترین ہیرا لے کر سرِ عام بازاروں میں گھومنا شروع کر دے اور لوگوں کی نظر اس ہیرے پر آسانی سے پڑتی رہے تو عین ممکن ہے کہ اسے دیکھ کر کسی کی نیت خراب ہو جائے اور وہ اسے لوٹنے کی کوشش کرے اور ایسے شخص کو جاہل اور بیوقوف جیسے خطابات سے نوازا جائے۔خلاصہ یہ ہے کہ قیمتی ہیرے کازیادہ تحفظ اسے مضبوط لاکر کے اندر رکھنے میں ہے نہ کہ اسے لے کر سرِ عام گھومنے میں اور اسی طرح عورت کی عصمت کا زیادہ تحفظ اس کاگھر کے اندر رہنے میں ہے نہ کہ غیرمردوں کے سامنے آنے اور ان کے درمیان گھومنے میں ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ خود کو دانشور کہلانے والے وہ لوگ حقیقت میں دانش و حکمت سے نہایت دور ہیں جو دین ِاسلام کے اس حکم کے بنیادی مقصد کو پس ِپُشت ڈال کر اور کافروں کے طرز ِ زندگی سے مرعوب و مغلوب ہوکر غلامانہ ذہنیت سے اعتراضات کرتے ہیں ۔ایسے لوگوں کا اہم ترین مقصد یہ ہے کہ لوگوں کی نظر میں اسلام کے احکام کی قدر ختم ہو جائے، عورت اسلامی احکام کو اپنے حق میں سزا تصور کرے اور وہ اپنی عصمت جیسی قیمتی ترین دولت تک لٹیروں کے ہاتھ پہنچنے کی ہر رکاوٹ دور کر دے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اسلامی احکام کے مقاصد سمجھنے،ان پر عمل کرنے ، عورت کی عفت و عصمت کے دشمنوں کے عزائم کو سمجھنے اور ان سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى: اور بے پردہ نہ رہو جیسے پہلی جاہلیت کی بے پردگی۔} یعنی جس طرح پہلی جاہلیت کی عورتیں بے پردہ رہا کرتی تھیں اس طرح تم بے پردگی کا مظاہرہ نہ کرو۔
اگلی اور پچھلی جاہلیت سے کون سا زمانہ مراد ہے؟
اگلی اور پچھلی جاہلیت کے زمانے سے متعلق مفسرین کے مختلف اقوال ہیں ،ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ اگلی جاہلیت سے مراد اسلام سے پہلے کا زمانہ ہے، اس زمانے میں عورتیں اتراتی ہوئی نکلتی اور اپنی زینت اور مَحاسن کا اظہار کرتی تھیں تاکہ غیر مرد انہیں دیکھیں ، لباس ایسے پہنتی تھیں جن سے جسم کے اعضاء اچھی طرح نہ ڈھکیں اور پچھلی جاہلیت سے آخری زمانہ مراد ہے جس میں لوگوں کے افعال پہلوں کی مثل ہو جائیں گے ۔( خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۳، ۳ / ۴۹۹، جلالین، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۳۵۴، ملتقطاً)
اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ اور پردہ:
اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ پردے کا خوب اہتمام کرتی تھیں ،یہاں ان کے پردے کا حال ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں : ہم ازواجِ مُطَہَّرات کے پاس سے سواروں کے قافلے گزرتے تھے اور ہم (حج کے سفر میں ) تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ احرام کی حالت میں تھیں ، جب سوار ہمارے سامنے سے گزرنے لگتے تو ہم میں سے ہر ایک اپنی چادر کو اپنے سر سے لٹکا کر چہرے کے سامنے کر لیتی اور جب وہ آگے بڑھ جاتے تو ہم چہرہ کھول لیتی تھیں ۔( ابو داؤد، کتاب المناسک، باب فی المحرمۃ تغطی وجہہا، ۲ / ۲۴۱، الحدیث: ۱۸۳۳)
اللہ تعالیٰ اُمت کی ان مقدس ماؤں کے درجات بلند فرمائے اور ایک طرح سے ان کی بیٹیوں میں داخل مسلم خواتین کو اپنی ماؤں کی سیرت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔
بے پردہ اور بے حیا عورتوں کا انجام:
شرم و حیاء سے عاری اور بے پردہ عورتوں کا دُنْیَوی انجام تو ہر کوئی معاشرے میں اپنی نگاہوں سے دیکھ سکتا ہے کہ عزت دار اوربا حیا طبقے میں ان کی کوئی قدر نہیں ہوتی ، لوگ انہیں اپنی ہوس بھری نگاہوں کا نشانہ بناتے ہیں ،ان پر آوازیں کستے اور ان سے چھیڑ خوانی کرتے ہیں ،لوگوں کی نظر میں ان کی حیثیت نفس کی خواہش اور ہوس پوری کرنے کا ذریعہ ہونے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتی اور یہی وجہ ہے کہ ہوس پوری ہو جانے کے بعد وہ عورت سے لا تعلق ہو جاتے ہیں اور بہت سے لوگوں نے دیکھا ہو گا کہ ایسی عورت خود طرح طرح کے خطرناک اَمراض کا شکار ہو جاتی ہے اور آخر کار عبرتناک موت سے دوچار ہو کر قبر کی اندھیر نگری میں چلی جاتی ہے ،یہ تو ا ن کا دُنیوی انجام ہے ،اب یہاں ایسی عورتوں کا اُخروی انجام بھی ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جہنمیوں کی دو قسمیں ایسی ہیں جنہیں میں نے (اپنے زمانے میں ) نہیں دیکھا (بلکہ وہ میرے بعد والے زمانے میں ہوں گی) (1)وہ لوگ جن کے پاس گائے کی دم کی طرح کوڑے ہوں گے جن سے وہ لوگوں کو (ناحق) ماریں گے۔ (2)وہ عورتیں جو لباس پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی ،مائل کرنے والی اور مائل ہونے والی ہوں گی، ان کے سر موٹی اونٹنیوں کے کوہانوں کی طرح ہوں گے۔یہ نہ جنت میں جائیں گی اور نہ اس کی خوشبو پائیں گی حالانکہ اس کی خوشبو بہت دور سے آتی ہو گی۔( مسلم، کتاب اللباس والزینۃ، باب النساء الکاسیات۔۔۔ الخ، ص۱۱۷۷، الحدیث: ۱۲۵(۲۱۲۸))اس حدیث پاک میں عورتوں کے تین کام بیان ہوئے جن کی وجہ سے وہ جہنم میں جائیں گی۔
(1)… لباس پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی۔یعنی اپنے بدن کا کچھ حصہ چھپائیں گی اور کچھ حصہ ظاہر کریں گی تاکہ ان کا حسن و جمال ظاہر ہو یا اتنا باریک لباس پہنیں گی جس سے ان کا جسم ویسے ہی نظر آئے گا تو یہ اگرچہ کپڑے پہنے ہوں گی لیکن در حقیقت ننگی ہوں گی۔(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الدیات، باب ما لا یضمن من الجنایات، الفصل الاول، ۷ / ۸۳، تحت الحدیث: ۳۵۲۴)
(2)…مائل کرنے والی اور مائل ہونے والی ہوں گی۔ یعنی لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف مائل کریں گی اور خود ان کی طر ف مائل ہوں گی یا دوپٹہ اپنے سر سے اور برقعہ اپنے منہ سے ہٹا دیں گی تاکہ ان کے چہرے ظاہر ہوں یا اپنی باتوں یا گانے سے لوگوں کو اپنی طرف مائل کریں گی اورخود ان کی طرف مائل ہوں گی ۔
(3)… ان کے سر موٹی اونٹنیوں کے کوہانوں کی طرح ہوں گے۔ اس جملے کی تشریحات تو بہت ہیں لیکن بہتر تشریح یہ ہے کہ وہ عورتیں راہ چلتے وقت شرم سے سر نیچا نہ کریں گی بلکہ بے حیائی سے اونچی گردن سر اٹھائے ہر طرف دیکھتی لوگوں کو گھورتی چلیں گی، جیسے اونٹ کے تمام جسم میں کوہان اونچی ہوتی ہے ایسے ہی ان کے سر اونچے رہا کریں گے۔(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الدیات، باب ما لا یضمن من الجنایات، الفصل الاول، ۷ / ۸۳-۸۴، تحت الحدیث: ۳۵۲۴، ملخصاً)
اگر غور کیا جائے تو ان تینوں میں سے وہ کون سی ایسی صورت ہے جو ہمارے معاشرے کی عورتوں میں نہیں پائی جاتی ،ہمارے غیب کی خبریں دینے والے آقا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صدیوں پہلے جو خبر دی وہ آج حرف بہ حرف پوری ہوتی نظر آ رہی ہے اورہمارے معاشرے کی عورتوں کا حال یہ ہے کہ وہ لباس ایسے پہنتی ہیں جس سے ان کے جسم کا کچھ حصہ ڈھکا ہوتا ہے اور کچھ ننگا ہوتا ہے،یا ان کا لباس اتنا باریک ہوتا ہے جس سے ان کے جسم کی رنگت صاف نظر آرہی ہوتی ہے ،یا ان کا لباس جسم پر اتنا فٹ ہوتا ہے جس سے ان کی جسمانی ساخت نمایاں ہو رہی ہوتی ہے تو یہ بظاہر تو کپڑے پہنے ہوئی ہیں لیکن در حقیقت ننگی ہیں کیونکہ لباس پہننے سے مقصود جسم کو چھپانا اور اس کی ساخت کو نمایا ں ہونے سے بچانا ہے اور ان کے لباس سے چونکہ یہ مقصود حاصل نہیں ہورہا، اس لئے وہ ایسی ہیں جیسے انہوں نے لباس پہنا ہی نہیں اوران کے چلنے ،بولنے اور دیکھنے کا انداز ایسا ہوتا ہے جس سے وہ لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف مائل کر رہی ہوتی ہیں اور خود کا حال بھی یہ ہوتا ہے کہ غیر مردوں کی طرف بہت مائل ہوتی ہیں ،دوپٹے ان کے سر سے غائب ہوتے ہیں اور برقعہ پہننے والیاں نقاب منہ سے ہٹا کر چلتی ہیں تاکہ لوگ ان کا چہرہ دیکھیں ۔ایسی عورتوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب اور جہنم کی خوفناک سزاؤں سے ڈرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہماری عورتوں کو ہدایت اور عقل ِسلیم عطا فرمائے اور اپنی بگڑی حالت سدھارنے کی توفیق نصیب کرے،اٰمین۔[1]
دین ِاسلام عورت کی عصمت کا سب سے بڑا محافظ ہے :
یاد رہے کہ ایک با عزت اور حیا دار عورت کے لئے ا س کی عصمت سب سے قیمتی چیز ہے اور ایسی عورت کے نزدیک اپنی عصمت کی اہمیت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ اسے لٹنے سے بچانے کے لئے اپنی جان تک قربان کر دیتی ہے اور ہر عقل مند انسان یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ جو چیز جتنی زیادہ قیمتی ہوتی ہے ا س کی حفاظت کا اتنا ہی زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے حتّٰی کہ ان تمام اسباب اور ذرائع کو ختم کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی جاتی ہے جو قیمتی ترین چیز کے لٹنے کا سبب بن سکتے ہوں اور دین ِاسلام میں چونکہ عورت کی عصمت کی اہمیت اور قدر انتہائی زیادہ ہے اس لئے دین ِاسلام میں اس کی حفاظت کا بھی بھر پور اہتمام کیا گیا ہے ،جیسے دین ِاسلام میں عورتوں کو ایسے احکام دئیے گئے جن پر عمل نہ کرنا عورت کی عزت کیلئے خطرناک ہوسکتا ہے ،مثلاً عورتوں نیز مردوں کو حکم دیا گیاکہ وہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں ، عورتوں سے فرمایا کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رکھیں ،اپنے دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں ،نیز دورِ جاہلیّت میں جیسی بے پردگی ہوا کرتی تھی ویسی بے پردگی نہ کریں ، زمین پر اپنے پاؤں اس لئے زور سے نہ ماریں کہ ان کی اس زینت کا پتہ چل جائے جو انہوں نے چھپائی ہوئی ہے ، غیر مردوں کو اپنی زینت نہ دکھائیں ، اپنے گھروں میں ٹھہری رہیں ، غیر مرد سے کوئی بات کرنے کی ضرورت پڑ جائے تو نرم و نازک لہجے اورانداز میں بات نہ کریں وغیرہ ۔ پھر عورتوں کی عزت و عظمت بیان کرنے کیلئے قرآن میں فرمایا گیا کہ جو لوگ پاک دامن عورت پر بدکاری کی تہمت لگائیں اور اسے شرعی طریقے سے ثابت نہ کرسکیں تو انہیں اَسّی کوڑے لگائے جائیں ، ان کی گواہی کبھی نہ مانی جائے اور یہ لوگ فاسق ہیں ۔انجان، پاکدامن، ایمان والی عورتوں پر بدکاری کابہتان لگانے والوں پر دنیا اور آخرت میں لعنت ہے اور ان کے لیے قیامت کے دن بڑا عذاب ہے۔
ان اَحکام سے معلوم ہو اکہ دین ِاسلام عورت اور اس کی عصمت کاسب سے بڑامحافظ ہے اوراس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو مسلمان کہلانے کے باوجود چادر اور چار دیواری کے تَقَدُّس کو پامال کر کے عورت کی آزادی کا نعرہ لگانے اور روشن خیالی کے نام پر عورت کو ہر جگہ کی زینت بنانے اور حقوقِ نسواں کے نام پر ہر شعبے میں عورت کو مرد کے شانہ بشانہ کھڑا کر نے کی کوششیں کر کے عورتوں سے کھیلنے کو آسان سے آسان تر بنانے میں مصروف ہیں اور ان عورتوں کو بھی نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو اپنی عزت و ناموس کے دشمنوں ، بے علم دانشوروں کی چکنی چپڑی باتوں سے متاثر ہو کر خود کو خطرے پر پیش کرتی ہیں اورخود کو غیر محفوظ بناتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ اَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتِیْنَ الزَّكٰوةَ: اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو۔} یعنی اے میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ازواجِ مُطَہَّرات! تم نماز قائم رکھو جو کہ بدنی عبادات کی اصل ہے اور اگر تمہارے پاس مال ہو تو اس کی زکوٰۃ دو۔( روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۳، ۷ / ۱۷۱)
نوٹ:خیال رہے کہ یہ حکم عام ہے اور تمام عورتوں کے لیے یہی حکم ہے کہ وہ نمازپڑھیں ،روزے رکھیں اور اپنے مالوں کی زکوٰۃ اداکریں ۔
اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ اور عبادت:
اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے میں خوب کوشش کیا کرتی تھیں ، چنانچہ سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے کہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا روزانہ بلا ناغہ نمازِ تہجد پڑھنے کی پابند تھیں اور اکثر روزہ دار بھی رہا کرتی تھیں اور اُمُّ المؤمنین حضرت حفصہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کے بارے میں مروی ہے کہ آپ اکثر روزہ دار رہا کرتی تھیں اور تلاوتِ قرآن مجید اور دوسری قسم قسم کی عبادتوں میں مصروف رہا کرتی تھیں۔( سیرتِ مصطفی،انیسواں باب، ازواجِ مطہرات رضی اللّٰہ تعالٰی عنہن، ص۶۶۰، ۶۶۲-۶۶۳)
اللہ تعالیٰ اُمت کی ماؤں کی عبادات کا صدقہ ان کی روحانی بیٹیوں کو بھی نماز ،روزہ اور زکوٰۃ وغیرہ عبادات کی پابندی کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
نسبت پر بھروسہ کر کے نماز نہ پڑھنے اور زکوٰۃ نہ دینے والوں کو نصیحت:
یہاں اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کو حکم دیا گیا کہ نمازپڑھاکرواورزکوٰۃ دیاکرو۔اس سے معلوم ہوا کہ کسی کویہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قرابت کے باعث اگرکوئی نماز اورزکوٰۃ کا تارک ہوگاتواس سے کسی قسم کی پوچھ نہیں ہوگی۔اس سے ان لوگوں کوعبرت حاصل کرنی چاہیے کہ جونمازنہیں پڑھتے، روزے بھی نہیں رکھتے اور فرض ہونے کے باوجود زکوٰۃ بھی نہیں دیتے اور انہیں جب عمل کرنے کی دعوت دی جاتی ہے تونسبت کابہانہ بنادیتے ہیں کہ ہماری نسبت اچھوں کے ساتھ ہے ا س لئے اگر ہم ان احکام پر عمل نہ کریں تو بھی ہمارا بیڑہ پارہے۔
{وَ اَطِعْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ: اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو۔} یعنی تمام احکامات اور ممنوعات میں اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرو لہٰذا تم میں سے کسی کی شان کے لائق یہ بات نہیں کہ جس چیز کا اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حکم دیا تم ا س کی مخالفت کرو۔( صاوی، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۳، ۵ / ۱۶۳۸)
نوٹ :یہ حکم عام ہے اور تمام عورتوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرنے اور ان کی نافرمانی سے بچنے کا حکم ہے ۔
اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کی فرمانبرداری:
حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ازواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ فرائض اور سنتوں وغیرہ میں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خوب فرمانبرداری کیا کرتی تھیں حتّٰی کہ مُستحب احکام میں بھی ان کی اطاعت کاحال بے مثال تھا،چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرے لئے دعا فرما دیجئے کہ اللہ تعالیٰ جنت میں مجھے آپ کی اَزواجِ مُطَہَّرات میں سے رکھے۔ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر تم اس رتبے کی تمنا رکھتی ہو تو تمہیں چاہئے کہ کل کے لئے کھانا بچا کر نہ رکھو اور جب تک کسی کپڑے میں پیوند لگ سکتا ہے تب تک اسے بیکار نہ سمجھو۔اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فقر کو مالداری پر ترجیح دینے کی اس نصیحت پر اتنی عمل پیرا رہیں کہ (زندگی بھر) کبھی آج کا کھانا کل کے لئے بچا کر نہیں رکھا۔(مدارج النبوت، قسم پنجم، باب دوم: ذکر ازواج مطہرات۔۔۔ الخ، ۲ / ۴۷۲-۴۷۳)
اللہ تعالیٰ اُمَّہاتُ المؤمنین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کی اطاعت و فرمانبرداری کا صدقہ مسلم خواتین کو بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔
{اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ: اے نبی کے گھر والو! اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے۔} یعنی اے میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے گھر والو! اللہ تعالیٰ تو یہی چاہتا ہے کہ گناہوں کی نجاست سے تم آلودہ نہ ہو۔( مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۹۴۰، ملخصاً)
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اہلِ بیت:
اِس آیت میں اہلِ بیت سے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ازواجِ مُطَہَّرات سب سے پہلے مراد ہیں کیونکہ آگے پیچھے سارا کلام ہی اُن کے متعلق ہورہا ہے۔ بقیہ نُفوسِ قُدسیہ یعنی خاتونِ جنت حضرت فاطمہ زہرا، حضرت علی المرتضیٰ اور حسنین کریمَین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا اہلِ بیت میں داخل ہونابھی دلائل سے ثابت ہے۔
صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی کتاب’’سوانح کربلا‘‘میں یہ آیت لکھ کر اہلِ بیت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے مِصداق کے بارے میں مفسرین کے اَقوال اور اَحادیث نقل فرمائیں ۔ اس کے بعد فرماتے ہیں : ’’خلاصہ یہ کہ دولت سرائے اقدس کے سکونت رکھنے والے اس آیت میں داخل ہیں (یعنی ازواجِ مُطَہَّرات) کیونکہ وہی اس کے مُخاطَب ہیں (اور) چونکہ اہلِ بیتِ نسب (نسبی تعلق والوں ) کا مر اد ہونا مخفی تھا، اس لئے آں سَرور ِعالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے اس فعل مبارک (جس میں پنجتن پاک کو چادر میں لے کر ان کے لئے دعا فرمائی) سے بیان فرمادیا کہ مراد اہلِ بیت سے عام ہیں ۔ خواہ بیت ِمسکن کے اہل ہوں جیسے کہ اَزواج یا بیت ِنسب کے اہل (جیسے کہ) بنی ہاشم و مُطّلب۔(سوانح کربلا، اہل بیت نبوت، ص۸۲)
امام عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’ ان آیات (یعنی اس آیت اور اس کے بعد والی آیت) میں رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اہلِ بیت کو نصیحت فرمائی گئی ہے تاکہ وہ گناہوں سے بچیں اور تقویٰ و پرہیزگاری کے پابند رہیں ۔یہاں گناہوں کو ناپاکی سے اور پرہیزگاری کو پاکی سے تشبیہ دی گئی کیونکہ گناہوں کا مُرتکب اُن سے ایسے ہی مُلَوَّث ہوتا ہے جیسے جسم نجاستوں سے آلودہ ہوتا ہے اور اس طرزِ کلام سے مقصود یہ ہے کہ عقل رکھنے والوں کو گناہوں سے نفرت دلائی جائے اور تقویٰ و پرہیزگاری کی ترغیب دی جائے۔( مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۹۴۰-۹۴۱)
[1] ۔۔۔۔ پردے سے متعلق مفید معلومات حاصل کرنے کے لئے امیر ِاہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی کتاب ’’پردے کے بارے میں سوال جواب‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔