Home ≫ ur ≫ Surah Al Ahzab ≫ ayat 32 ≫ Translation ≫ Tafsir
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا(32)
تفسیر: صراط الجنان
{یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ: اے نبی کی بیویو!تم اور عورتوں جیسی نہیں ہو۔} یعنی اے میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بیویو! تم فضیلت اور شرف میں اور عورتوں جیسی نہیں ہو کیونکہ تم سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اَزواج اور تمام مومنوں کی مائیں ہو اورتمہیں میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے خاص قرب حاصل ہے اور جب تمہاری قدر اتنی اعلیٰ اورتمہارا رتبہ اتنا عظیم ہے تو یہ بات تمہاری شان کے لائق نہیں کہ تم دنیا کی زینت اور آرائش کا مطالبہ کرو۔(روح البیان،الاحزاب،تحت الآیۃ:۳۲، ۷ / ۱۶۹، تفسیر کبیر، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۲، ۹ / ۱۶۷، صاوی، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۲، ۵ / ۱۶۳۷، ملتقطاً)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’اس سے مراد یہ ہے کہ (اے میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ازواجِ مُطَہَّرات!) میری بارگاہ میں تمہاری قدر دوسری نیک خواتین کی قدر جیسی نہیں ہے بلکہ تم میری بارگاہ میں زیادہ عزت والی ہو اور میرے نزدیک تمہارا ثواب زیادہ ہے۔(خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۴۹۸)
حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ چاہتے تو انتہائی شاہانہ زندگی گزار سکتے تھے اور اپنی ازواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کو دنیا کی تما م راحتیں اور آسائشیں فراہم کر سکتے تھے، لیکن آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دنیا، اس کی نعمتوں اور آسائشوں کی طرف رغبت نہ رکھتے تھے اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرما دیا تھا کہ میں دنیا سے نہیں ہوں اور دنیا مجھ سے نہیں ہے۔(کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، ۲ / ۸۰، الحدیث: ۶۱۲۵، الجزء الثالث) اس لئے آپ کے ساتھ انتہائی قرب رکھنے والوں کی شان کے لائق بھی یہی تھا کہ وہ بھی دنیا کی طرف راغب نہ ہوں ،پھر ازواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ نے دنیا سے بے رغبتی اور زہد و قناعت کا کیسا شاندار مظاہرہ فرمایا ا س کا اندازہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کے درجِ ذیل دو واقعات سے لگایا جا سکتا ہے ،
(1)…حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کے پاس بیت المال سے 80,000 درہم آئے تو آپ نے اپنی کنیز کو وہ درہم تقسیم کرنے کا حکم دیا ،کنیز نے ایک ہی مجلس میں وہ سارے درہم تقسیم کر دئیے،جب وہ فارغ ہوئی تو حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے اس سے کوئی چیز مانگی جس سے وہ روزہ افطار کر لیں تو کنیز کوگھر میں کوئی ایسی چیز نہ ملی جس سے حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا روزہ افطار کر لیتیں ۔(صاوی، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۲۹، ۵ / ۱۶۳۶)
(2)…حضرت ابو سعید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :ایک شخص اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کی بارگاہ میں حاضر ہوا،اس وقت آپ اپنا نقاب سی رہی تھیں ،اس نے عرض کی :اے اُمُّ المؤمنین! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا، کیا اللہ تعالیٰ نے مال و دولت کی فراوانی نہیں فرما دی ؟آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے فرمایا: ’’چھوڑو (ان باتوں کو، میرے نزدیک) وہ نئے کپڑوں کا حقدار نہیں جو پرانے کپڑے استعمال نہ کرے۔(طبقات الکبری، ذکر ازواج رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، عائشۃ بنت ابی بکر، ۸ / ۵۸)
اللہ تعالیٰ ازواجِ مُطَہّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے زہد وقناعت کا صدقہ مسلمان مردوں اور عورتوں کو بھی زہد و قناعت اور دنیا سے بے رغبتی کی دولت نصیب فرمائے،اٰمین۔
{اِنِ اتَّقَیْتُنَّ: اگرتم اللہ سے ڈرتی ہو۔} آیت کے اس حصے میں ازواجِ مُطَہّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کو ایک ادب کی تعلیم دی گئی ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کے حکم کی اوررسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رضا کی مخالفت کرنے سے ڈرتی ہو تو جب کسی ضرورت کی بنا پر غیر مرد سے پسِ پردہ گفتگو کرنی پڑ جائے تواس وقت ایسا انداز اختیار کرو جس سے لہجہ میں نزاکت نہ آنے پائے اور بات میں نرمی نہ ہو بلکہ انتہائی سادگی سے بات کی جائے اور اگر دین و اسلام کی اور نیکی کی تعلیم اور وعظ و نصیحت کی بات کرنے کی ضرورت پیش آئے تو بھی نرم اور نازک لہجے میں نہ ہو۔(ابو سعود،الاحزاب،تحت الآیۃ:۳۲، ۴ / ۳۱۹-۳۲۰، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۹۴۰، جمل، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۲، ۶ / ۱۷۰، ملتقطاً)
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :ازواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ امت کی مائیں ہیں اور کوئی شخص اپنی ماں کے بارے میں بری اور شہوانی سوچ رکھنے کا تصور تک نہیں کر سکتا، اس کے باوجود ازواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کو بات کرتے وقت نرم لہجہ اپنانے سے منع کیا گیا تاکہ جو لوگ منافق ہیں وہ کوئی لالچ نہ کر سکیں کیونکہ ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں ہوتا جس کی بنا پر ان کی طرف سے کسی برے لالچ کا اندیشہ تھا ا س لئے نرم لہجہ اپنانے سے منع کر کے یہ ذریعہ ہی بند کردیا گیا۔(صاوی، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۲، ۵ / ۱۶۳۷، ملخصاً) اس سے واضح ہوا کہ جب ازواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کیلئے یہ حکم ہے تو بقیہ کیلئے یہ حکم کس قدر زیادہ ہوگا کہ دوسروں کیلئے تو فتنوں کے مَواقع اور زیادہ ہیں ۔
اس آیت سے معلوم ہو اکہ اپنی عفت اور پارسائی کی حفاظت کرنے والی خواتین کی شان کے لائق یہی ہے کہ جب انہیں کسی ضرورت ،مجبوری اور حاجت کی وجہ سے کسی غیر مرد کے ساتھ بات کرنی پڑ جائے تو ان کے لہجے میں نزاکت نہ ہو اور آواز میں بھی نرمی اور لچک نہ ہو بلکہ ان کے لہجے میں اَجْنَبِیّت ہو اور آواز میں بیگانگی ظاہر ہو، تاکہ سامنے والا کوئی بُرا لالچ نہ کر سکے اور اس کے دل میں شہوت پیدا نہ ہو اورجب سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زیرِ سایہ زندگی گزارنے والی امت کی ماؤں اور عفت و عصمت کی سب سے زیادہ محافظ مقدس خواتین کو یہ حکم ہے کہ وہ نازک لہجے اور نرم انداز سے بات نہ کریں تاکہ شہوت پرستوں کو لالچ کا کوئی موقع نہ ملے تو دیگر عورتوں کے لئے جو حکم ہو گااس کا اندازہ ہر عقل مند انسان آسانی کے ساتھ لگا سکتا ہے۔
دین ِاسلام کو یہ اعزازحاصل ہے کہ اس نے پاکیزہ معاشرے کے قیام کے لئے نیز جو چیزیں اِس راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں ، انہیں ختم کرنے کے لئے انتہائی احسن اور مُؤثر اِقدامات کئے ہیں ۔ فحاشی، عُریانی اور بے حیائی پاکیزہ معاشرے کے لئے زہرِ قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں ،دین ِاسلام نے جہاں ان چیزوں کو ختم کرنے پر زور دیا وہیں ان ذرائع اور اسباب کو ختم کرنے کی طرف بھی توجہ کی جن سے فحاشی ،عریانی اور بے حیائی پھیل سکتی ہے،جیسے عورتوں کا نرم و نازک لہجے میں بات کرنا مردوں کے دل میں شہوت کا بیج بونے میں انتہائی کارگر ہے اور فحاشی و بے حیائی کی طرف مائل کرنے والی عورتیں ابتدا میں اسی چیز کا سہارا لیتی ہیں ،اس لئے اسلام نے اس ذریعے کو ہی بند کرنے کا فرما دیا تاکہ معاشرہ پاکیزہ رہے اور اس کی بنیادیں مضبوط ہوں ۔افسوس ہمارے معاشرے میں آزادی ، روشن خیالی اور معاشی ترقی کے نام پر عورتوں کو غیر مردوں کے ساتھ باتیں کرنے کے نت نئے مواقع فراہم کئے جا رہے ہیں اورعورتوں کو نازک لہجے اور نرم انداز سے بات کرنے کی باقاعدہ تربیت دے کر تعلیم،طب،سفر،تجارت،میڈیا اورٹیلی کام وغیرہ کے مختلف شعبوں میں تعینات کیا جاتا ہے حتّٰی کہ دُنْیَوی شعبہ جات میں عوامی رہنمائی اور خدمت کا شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو جہاں تربیت یافتہ عورت موجود نہ ہو اور اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے اور ایسی عورتیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ انہیں دوسری عورتوں کے مقابلے میں شہوت پرست مردوں سے کتنا واسطہ پڑتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ لوگوں کو عقلِ سلیم ا ورہدایت عطا فرمائے ا ور دین ِاسلام کی فطرت سے ہم آہنگ تعلیمات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔
اس آیت سے ایک اہم بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ کسی بھی طرح کے نقصان جیسے نیک اعمال کی بربادی ، معاشرتی اَقدار کی تباہی ، جان اور مال وغیرہ کی ہلاکت سے بچنے کے لئے ان اسباب اور ذرائع کو ختم کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے جو نقصان کی وجہ بنتے ہیں ، لہٰذا نیک اعمال کو بچانے کے لئے گناہوں سے بچنا ہو گا،معاشرتی اقدار کی حفاظت کے لئے فحاشی ،عریانی، بے حیائی اور ان کے ذرائع کو ختم کرنا ہو گا ۔اگر غور کریں تو نقصان سے بچنے کے لئے اس کے ذرائع اور اسباب کو ختم کرنے کی سینکڑوں مثالیں ہمارے سامنے آ سکتی ہیں اور دین ِاسلام کے احکام کی حکمتیں بھی ہم پر واضح ہو سکتی ہیں ۔